امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘ نے پاکستان کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور ان سے وابستہ افراد کو قرض کی فراہمی کے ایک منصوبہ کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت اہل افراد اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
اس مقصد کے لیے ’یوایس ایڈ‘ چھ کروڑ ڈالر چار مقامی بینکوں کو فراہم کرے گا جن کے ذریعے قرض کی ترسیل ممکن ہو سکے گی۔
یہ اقدام پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور اقتصادی شراکت داری کے فروغ کا حصہ ہے۔
یوایس ایڈ میں دفتر برائے افغانستان اور پاکستان میں معاون منتظم ڈونلڈ لیری سیمپلر نے اس پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 32 لاکھ میں سے لگ بھگ 30 لاکھ یعنی 90 فیصد سے بھی زائد کاروباری ادارے چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہیں۔
ڈونلڈ لیری سیمپلز کا کہنا تھا کہ ’’صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی چھوٹے کاروباری اداروں کو ترقی میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہر جگہ چھوٹے کاروباری اداروں کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سے ایک چیلنج قرض تک رسائی کا ہے۔‘‘
ملک کے چھوٹے اور درمیان درجے کے کاروباری اداروں کا پاکستان کی خام ملکی پیداوار میں 30 فیصد اور ملک کی برآمدات سے حاصل ہونے والی مجموعی آمدن میں 25 فیصد حصہ ہے۔
اقتصادی اُمور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو اپنے منصوبوں کو وسعت دینے کے لیے اگر کم شرح سود پر قرض حاصل ہو سکے تو نا صرف اس سطح کے کاروبار ملک کی معیشت میں مزید اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے ملازمتوں کے لاکھوں مواقع بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
عموماً بینک اس طبقے کو قرض دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں مگر ’’یوایس ایڈ‘‘ اس تاثر کو زائل کرنا چاہتا ہے کہ چھوٹے کاروباری اداروں کو قرض کی فراہمی گھاٹے کا سودا ہے۔
پاکستان کی سمال اینڈ میڈیم بزنس انٹرپرائزز اٹھارٹی کے 2009 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 70 فیصد چھوٹے اور درمیانے کاروباری ادارے بینکوں کی بجائے قرض کے لیے دوستوں یا خاندان کے افراد سے رابطہ کرتے ہیں۔
باقی تیس فیصد میں سے زیادہ تر کے پاس یا تو قرضوں سے متعلق کسی قسم کی معلومات نہیں ہوتی یا وہ بینکوں سے قرض حاصل کرنے طریقہ کار سے نا واقف ہیں۔
تاہم موجودہ حکومت کے متعلقہ عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے قرض کی فراہمی اور کاروبار کے آغاز کے لیے طریقہ کار کو سہل بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔