کراچی میں پولیس نے کہا ہے کہ جمعہ کو شہر کے مختلف علاقوں سے کم از کم چار مزید لاشیں ملی ہیں جس کے بعد گزشتہ تین روز کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 52 ہو گئی ہے۔ امن و امان کی اس صورت حال پر جمعہ کو صدرآصف علی زرداری نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی طلب کیا ہے۔
حکام جرائم پیشہ عناصر کے گروہوں کے درمیان تصادم کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں جاری خونریز بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
مقتولین میں سے بیشتر کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا اور ان کی بوری بند لاشیں گلیوں اور کچرے کے ڈھیروں سے ملیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک جمعرات کی شب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر کراچی پہنچے جہاں اُنھوں نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی زیر صدارت ایک اجلاس میں شہر میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا۔
ذرائع ابلاغ کے سے گفتگو میں رحمن ملک نے کہا ہے کہ ”دو تین گروپوں میں ایک جھگڑا چل ہے۔ بھتہ مافیہ جو اس وقت کراچی میں سرگر م ہے اُن کے مابین اپنے بھتے کی وصولی کے لیے اور زیادہ علاقوں کو اپنے زیر اثر لانے کے تنازع پریہ لڑائی شروع ہوئی جس میں غریب اور بے گنا ہ لوگ مارے گئے ۔“
اُنھوں نے نام لیے بغیر کراچی میں متحارب گروپ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اغواء کیے گئے معصوم لوگوں کو فوری طور پر رہا کریں ۔ ”اپیل بھی ہوگی اور وارننگ بھی ہوگی کہ جتنی جلدی ممکن ہو اُنھیں رہاکیا جائے۔“
کراچی پولیس کے سربراہ سعود مرزا کا کہنا ہے کہ بدھ کو 17 جب کہ جمعرات کو 31 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ شہر میں تشدد کے واقعات میں اضافہ بدھ کو لیاری کے علاقے میں حکمران پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی واجا کریم داد کی مسلح افراد کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہوا۔
باور کیا جاتا ہے کہ کراچی میں سرگرم بھتہ خور اور جرائم پیشہ گروہوں کے مبینہ طور پر بڑی سیاسی جماعتوں سے روابط ہیں۔
پاکستانی معیشت کی شاہ رگ کہلانے والے اس ساحلی شہری میں وقفے وقفے سے سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر پرتشدد واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ کراچی، جس کی آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد ہے، میں صرف جولائی کے مہینے میں 300 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔