پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کو کامیاب دیکھنے کا خواہاں ہے، تاکہ وہاں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی
نے مزید کہا کہ افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف واضح ہے جب کہ پاکستان کی قیادت بھی متعدد بار اس بارے میں بات کر چکی ہے۔
ترجمان کے بقول، پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امن عمل کامیاب ہوتے ہوئے دیکھنے کا خواہاں نہیں ہوگا۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوئٹزرلینڈ میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ با معنی افغان امن مذاکرات کے لیے طالبان کو پُر تشدد کارروائیاں روکنی ہوں گی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن و مصالحت کے عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان جلد بین الافغان مذاکرات کے آغاز کا منتظر ہے، تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو سکے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان دوحہ میں مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ طالبان بھی تشدد میں کمی کا کہہ چکے ہیں۔
ان کے بقول، پاکستان توقع کرتا ہے کہ طالبان کا تشدد میں کمی کا اعلان اور امن مذاکرات میں پیش رفت قیام امن میں معاون ہوں گے۔
'ٹرمپ کے دورہ پاکستان کی تاریخ طے نہیں'
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کے مطابق، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے دورے کی تاریخ ابھی طے نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کے دورے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ امید ہے کہ وہ جلد پاکستان کا دورہ کر سکیں گے۔
ڈیوس میں پاکستان کے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات میں بھی امریکی صدر سے پاکستان کے دورے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، جس ہر انہوں نے کہا تھا کہ ان کو فروری میں خطے کا دورہ کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا الگ سے دورہ کریں جو خطے میں کسی اور دورے کے ساتھ جڑا ہوا نہ ہو، کیوں کہ پاکستان کی انفرادی حیثیت ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کے بقول، اس وقت کوئی تاریخ یا ٹائم فریم طے نہیں ہے۔ لیکن، امید کرتے ہیں کہ اس سال کے دوران یا شاید امریکی صدارتی انتخابات کے بعد اس دورے کے بارے میں کام ہوگا۔
'خطے میں اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے'
بھارت کے روس سے ایس 400 دفاعی میزائل خریدنے کے معاہدے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ترجمان دفتر خارجہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس اقدام سے خطے میں اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
روس اور بھارت کا نام لیے بغیر عائشہ فاروقی نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں بھی خطے میں بیلسٹک میزائل سسٹم کو شامل کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔
ان کے بقول، پاکستان سمجھتا ہے کہ عدم استحکام کا سبب بننے والا یہ نظام خطے کے توازن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے اسلحے کی غیر ضروری دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی غلط اقدام کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت اور روس میں ایس-400 دفاعی میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ ہے۔ اسلام آباد ماضی میں بھی اس پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔