پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ملک کر افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں ہے۔ افغانستان میں جنگ بندی کے مثبت اشارے ملے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار عمران خان نے بدھ کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منگل کو ڈیوس میں ملاقات کے بعد ایک ایسے وقت سامنے آیا جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات اہم مرحلے پر پہنچ گئے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جنگ بندی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس سے پاکستان کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں تک اقتصادی راہداری کا راستہ کھل سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے افغانستان میں 1980 کی دہائی کے تنازع اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔
وزیر اعظم کے بقول جب سویت یونین کا افغانستان سے انخلا ہو گیا تو اس کے بعد پاکستان کو کلاشنکوف اور منشیات کے کلچر اور فرقہ واریت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس نے پاکستانی معاشرے کو نقصان پہنچایا۔
وزیر اعظم عمران خان کے بقول نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کی وجہ سے بھی پاکستان کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے بقول خود کش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کے باعث پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیا جاتا رہا۔ اس دوران 70 ہزار پاکستانیوں کی جان گئی۔
عمران خان نے کہا کہ جب وہ حکومت میں آئے تو فیصلہ کیا کہ آئندہ پاکستان کسی تنازع کا حصہ بننے کی بجائے صرف امن کا ساتھ دے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ان کی حکومت نے پہلی بار ارادی طور پر عسکری گروپوں کو نا صرف غیر مسلح کیا بلکہ ان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بقول ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان مین سیاحت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے سعودی عرب ایران کشیدگی کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کو روکنے کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ اس کے پاکستان کے لیے سنگین مضمرات ہو سکتے تھے۔