رسائی کے لنکس

افغانستان نقل مکانی کر کے جانے والے قبائلیوں کی رضاکارانہ واپسی پر زور


سادہ کپڑوں میں ملبوس افغان سکیورٹی اہلکار خوست کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پاکستانی پناہ گزین کے پاس کھڑا ہے۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس افغان سکیورٹی اہلکار خوست کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پاکستانی پناہ گزین کے پاس کھڑا ہے۔

ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ افغان علاقے میں مقیم ان پناہ گزینوں میں سے اکثر واپس آنے پر رضا مند نہیں اور وہ اعلان کردہ مراعات کو ناکافی تصور کرتے ہیں

پاکستان میں حکام نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے افغانستان میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد سے کہا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آنے کے لیے کوائف کا اندراج یکم اگست تک مکمل کر لیں۔

جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہونے سے قبل جہاں لاکھوں قبائلی نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، وہیں ہزاروں قبائلی سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" کے اندازوں کے مطابق افغان صوبوں خوست اور پکتیکا میں 32576 پناہ گزین خاندان مقیم ہیں جن کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار سے زائد بنتی ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق پاکستانی حکام نے کہا کہ ان افراد میں کوائف کے اندراج اور تصدیق کے فارم پہلے ہی ان کے عمائدین کے ذریعے تقسیم کیے جا چکے ہیں جہیں یکم اگست تک مکمل کر لیا جائے، بصورت دیگر ان کی اپنے گھروں کو واپسی میں انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید برآں بیان میں کہا گیا کہ کاغذات مکمل ہونے کے بعد ہر قبیلے کے مقامی عمائدین کے جرگے کے ذریعے ان لوگوں کو واپسی سے متعلق معلومات اور ہدایات سے مطلع کر دیا جائے گا۔

افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی یہ بتا چکے ہیں کہ ان افراد کی واپسی کے لیے غلام خان سرحدی گزرگاہ پر انتظامات کیے گئے ہیں جہاں یہ اپنے کاغذات حکام کے حوالے کریں گے۔

ایسی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ واپس نہ آنے والوں کی پاکستان میں قبائلی حیثیت کو ختم کر دیا جائے گا تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ رضاکارانہ واپسی کا عمل ہے لیکن ضروری دستاویزات کے بغیر آنے والوں کو وہ مراعات نہیں دی جائیں گی جن کا کہ اپنے گھروں کو واپس آنے والوں کے لیے اعلان کیا گیا ہے۔

رضاکارانہ طور پر افغانستان سے واپس آنے والے پاکستانی قبائلی خاندان کو 35 ہزار روپے، چھ ماہ کا راشن اور دیگر اشیائے ضروری دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

لیکن ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ افغان علاقے میں مقیم ان پناہ گزینوں میں سے اکثر واپس آنے پر رضا مند نہیں اور وہ اعلان کردہ مراعات کو ناکافی تصور کرتے ہیں جب کہ بعض کے نزدیک ان کے آبائی علاقوں میں آپریشن کے باعث ہونے والی تباہی کے بعد وہاں ان کی بحالی کے اقدام ناکافی ہیں۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان کے نوے فیصد علاقے کو شدت پسندوں سے پاک کر چکی ہے اور وہاں بحالی و تعمیر نو کے کام کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے بھی مناسب انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

فوجی آپریشن کے باعث پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کر جانے والے قبائلیوں کی مرحلہ وار واپسی کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG