اسلام آباد —
پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ملک کی مخلوط حکومت کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے باز رکھنے کے لیے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔
ان جماعتوں کا موقف ہے کہ فوجی آپریشن ملک میں انتشار اور بدامنی میں مزید اضافے کا باعث ہو گا۔
جعمیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اُن کی جماعت روز اول سے فوجی طاقت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے خلاف ہے۔
’’کراچی میں روزانہ دس پندرہ لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ اور گلگت بلتستان میں قتل و غارت گری ہے وہاں پر کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ ‘‘
مولانا فضل الرحمان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو ایک بار پھر یہ متنبہ کیا کہ ان کی جماعت شمالی وزیرستان میں آپریشن کی ہر گز حمایت نہیں کرے گی۔
مولانا فضل الرحمان کے انتباہ کے چند گھنٹوں بعد دارالحکومت میں وکلا برادری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے سوا پاکستان کے پاس کوئی دوسرا چا رہ نہیں۔
’’دہشت گردی نے ہمیں کھوکھلا کیا۔ دہشت گردی نے ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہزاروں لوگ اس کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ یہ کون سی سوچ ہے جو ہمیں اندر سے مارنا چاہ رہی ہے۔‘‘
وزیراعظم نے مزید کہا ’’اس سوچ کے خلاف ہم نے آواز بلند کرنی ہے۔ اگر آپ اور ہم سب مل کر اس مصیبت اور لعنت کے خلاف نکلیں گے تو دنیا بھی ہمارا ساتھ دے گی۔ اس میں گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ کوئی کسی پر اپنا طرز زندگی تھونپ نہیں سکتا۔ کوئی کسی کو جنت و دوزخ کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔‘‘
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے بھی بدھ کی شام حکومت کو شمالی وزیرستان میں کسی فوجی مہم جوئی سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اس کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
’’آئندہ انتخابات آ رہے ہیں۔ ہم نے آئندہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کس طرح رکھنے ہیں یہ اگلی حکومت پر چھوڑ دیں۔ ہم نے کس سے بات چیت کرنی ہے اور کس سے جنگ کرنی ہے یہ آئندہ حکومت پر چھوڑ دیں۔‘‘
شمالی وزیرستان میں آپریشن کے مخالفین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت نے فوج کو اس کی اجازت دی تو انتہا پسند عناصر کی طرف سے پاکستان کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان ناقدین کے بقول پاکستانی حکومت کو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے مگر اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان امریکہ سے جنگی اتحاد ختم کر دے۔
حکومت مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مخالفت نے ہی حکمران پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو رواں ہفتے قومی اسمبلی میں شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت میں مجوزہ قرارداد پیش کرنے سے باز رکھا۔
ان جماعتوں کا موقف ہے کہ فوجی آپریشن ملک میں انتشار اور بدامنی میں مزید اضافے کا باعث ہو گا۔
جعمیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اُن کی جماعت روز اول سے فوجی طاقت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے خلاف ہے۔
’’کراچی میں روزانہ دس پندرہ لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ اور گلگت بلتستان میں قتل و غارت گری ہے وہاں پر کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ ‘‘
مولانا فضل الرحمان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو ایک بار پھر یہ متنبہ کیا کہ ان کی جماعت شمالی وزیرستان میں آپریشن کی ہر گز حمایت نہیں کرے گی۔
مولانا فضل الرحمان کے انتباہ کے چند گھنٹوں بعد دارالحکومت میں وکلا برادری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے سوا پاکستان کے پاس کوئی دوسرا چا رہ نہیں۔
’’دہشت گردی نے ہمیں کھوکھلا کیا۔ دہشت گردی نے ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہزاروں لوگ اس کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ یہ کون سی سوچ ہے جو ہمیں اندر سے مارنا چاہ رہی ہے۔‘‘
وزیراعظم نے مزید کہا ’’اس سوچ کے خلاف ہم نے آواز بلند کرنی ہے۔ اگر آپ اور ہم سب مل کر اس مصیبت اور لعنت کے خلاف نکلیں گے تو دنیا بھی ہمارا ساتھ دے گی۔ اس میں گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ کوئی کسی پر اپنا طرز زندگی تھونپ نہیں سکتا۔ کوئی کسی کو جنت و دوزخ کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔‘‘
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے بھی بدھ کی شام حکومت کو شمالی وزیرستان میں کسی فوجی مہم جوئی سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اس کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
’’آئندہ انتخابات آ رہے ہیں۔ ہم نے آئندہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کس طرح رکھنے ہیں یہ اگلی حکومت پر چھوڑ دیں۔ ہم نے کس سے بات چیت کرنی ہے اور کس سے جنگ کرنی ہے یہ آئندہ حکومت پر چھوڑ دیں۔‘‘
شمالی وزیرستان میں آپریشن کے مخالفین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت نے فوج کو اس کی اجازت دی تو انتہا پسند عناصر کی طرف سے پاکستان کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان ناقدین کے بقول پاکستانی حکومت کو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے مگر اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان امریکہ سے جنگی اتحاد ختم کر دے۔
حکومت مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مخالفت نے ہی حکمران پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو رواں ہفتے قومی اسمبلی میں شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت میں مجوزہ قرارداد پیش کرنے سے باز رکھا۔