پاکستان نے سرحد پار افغانستان سے اس کے ہاں حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی امریکی فوج کی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ انسدادِ دہشت گردی کے علاقائی تعاون کے لیے "اچھا اقدام" ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے پیر کو کابل میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اس پیشکش کا مقصد پاکستانی فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران کی جانے والی گولہ باری میں سرحد پار افغانستان میں عام شہریوں کو اس کی زد میں آنے سے بچانا ہے۔
"ہم نے یہ پیشکش بھی ہے کہ انھیں (پاکستان کو) ڈیونڈر لائن کے اس طرف کسی بھی طرح کے تحفظات ہیں تو ہمیں مطلع کریں اور ہم اس پر کارروائی کریں گے۔ سرحد پار سے گولہ باری ضروری نہیں ہے۔"
گزشتہ ہفتے پاکستانی فورسز نے مبینہ طور پر افغان صوبے کنڑ کے علاقے میں کئی روز تک سیکڑوں گولے داغے تھے جس سے افغان حکام کے بقول بہت سے افغان دیہاتی شدید سرد موسم میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سرحد پار یہ فائرنگ عسکریت پسندوں کے ان حملوں کے ردِ عمل میں کی گئی تھی جن میں متعدد پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جنرل نکولسن کے بیان پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ملک نے ہمیشہ سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے پیشکش اور تعاون کی خواہش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "یکطرفہ طور پر پاکستان نے اپنی جانب تمام علاقوں کو (دہشت گردوں سے) صاف کر دیا ہے، ریاست کی عمل داری بحال کی ہے۔ غیر قانونی طور پر لوگوں کی نقل و حرکت اور دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے (افغانستان کے ساتھ سرحد پر) اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئی چوکیاں اور قلعے بنائے ہیں اور باڑ لگانے کا کام بھی جاری ہے۔"
جنرل نکولسن نے سرحدی تحفظات کو دور کرنے کے لیے بہتر باہمی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔
امریکی جنرل کا کہنا تھا، "میرا خیال ہے کہ اب ہمیں ڈیورنڈ لائن پر بہتر کنٹرول کے لیے حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے پاس ایسا لائحہ عمل ہو کہ ہم فائرنگ (گولہ باری) سے پہلے مشاورت کریں نہ کہ لوگوں کے بے گھر ہو جانے کے بعد۔"
پاکستان کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ جنرل نکولسن کے خیالات پاک افغان سرحد کی سلامتی سے متعلق اسلام آباد کے "درست اور جائز" تحفظات کا ایک طرح سے اعتراف ہے۔
"ان بنیادی تحفظات پر توجہ دینے کا امریکی عزم نہ صرف پاک افغان سرحد کے انتظام کے ضمن میں بلکہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے پاک امریکہ تعاون کے لیے بھی اچھا قدم ہے۔"
پاکستانی فورسز پر ماضی میں بھی یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ افغان سرحد کے پار شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں اور اس پر عام شہریوں کے علاوہ حکام بھی احتجاج کر چکے ہیں۔
افغان حکومت برسوں تک یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ طالبان راہنما پاکستان میں موجود ہیں اور وہ اس کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔
اسلام آباد ان الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کرتا ہے کہ پاکستان نے اپنے ہاں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔