پاکستان کی وزارت عظمیٰ کس کوملے گی ؟اس سوال کا جواب جاننے کیلئے تمام نظریں اسلام آباد پر مرکوز ہیں ۔اس معاملے پر اتحادی جماعتوں کو مطالبات منوانے کا نادر موقع بھی ہاتھ آ گیا ۔ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ اس معاملے میں ن لیگ کی ’اینٹری‘ سے سیاسی جوڑ توڑ عروج پر نظر آرہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے ۔
نیا وزیراعظم کون ؟
نئے وزیراعظم کا نام تلاش کرنے کیلئے بدھ کو بھی پیپلزپارٹی کا سوچ بچارجاری رہا ۔صدر زرداری کی صدارت میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں ممبران نے نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے تمام تر اختیارات صدر کو سونپ دیئے ۔ صدر کا کہنا تھا کہ نئے وزیراعظم کا فیصلہ ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا ۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اجلاس میں شریک تھے ۔
رپورٹس کے مطابق مخدوم شہاب الدین وزارت کیلئے مضبوط امیدوار ہیں لیکن ساتھ ہی احمد مختار کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ بعض حلقے حنا ربانی کھر اور قمر زمان کائرہ پر بھی نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔ یہ خبریں بھی عام ہیں کہ سنہ2008 کی طرح پیپلزپارٹی شاید پھر کوئی سرپرائز دے دے ، جیسا کہ مخدوم امین فہیم ، احمد مختیار کا نام لے کر عین موقع پر قرعہ یوسف رضا گیلانی کے نام نکل آیا تھا ۔ ادھر ایوان صدر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے نام کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا ۔
اتحادیوں کا موقف اور مطالبات
نئے وزیراعظم کے چناؤ کے لئے حکمران جماعت پیپلزپارٹی کو اتحادیوں کی حمایت کی ایک مرتبہ پھر اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحادیوں کے پاس مطالبات منوانے کا نادر موقع ہاتھ آگیاہے ۔ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شکوہ کیا کہ سب سے بڑے اتحادی ہونے کےباوجود ان کی جماعت کو پیپلزپارٹی برابری کا درجہ نہیں دے رہی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پیپلزپارٹی کا ہو گا اور اس کا حتمی نام سامنے آنے کے بعد ہی کوئی رد عمل سامنے آ سکتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ممبران کی جانب سے لوڈ شیدنگ کے معاملے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پیپلزپارٹی لوڈ شیڈنگ سے متعلق ان کی تجاویز پر عمل کرے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات قریب ہیں لہذا ایسے اقدامات کیے جائیں گے جس سے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔
بعدازاں، چوہدری شجاعت نے ایوان صدر میں صدر زرداری سے ملاقات بھی کی ۔ذرائع کے مطابق انہوں نے پارٹی سے متعلق کئی اہم مطالبات بھی صدر کے سامنے رکھے ۔
مبصرین کےمطابق ایم کیو ایم بھی نئے وزیراعظم کی حمایت میں کراچی میں امن کے قیام کیلئے اقدامات ، سندھ میں بلدیاتی انتخابات اور کوٹہ سسٹم سے متعلق اہم مطالبات رکھ سکتی ہے تاہم فوری طور پر ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے ۔ اے این پی بھی پارٹی کے اندر اس حوالے سے مشاورت میں مصروف ہے ۔
نون لیگ کی اینٹری
اس تمام تر صورتحال میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن بھی پوری طرح متحرک ہے ۔ بدھ کو مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں کا اجلاس ہو اجس میں فیصلہ کیا گیا کہ نئے وزیراعظم سے متعلق دیگر جماعتوں کے علاوہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے بھی رابطہ کیا جائے گا ۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے ایم کیو ایم کی قیادت سے ٹیلی فونک رابطہ بھی کیا ہے اور ملاقات بھی متوقع ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ق سے رابطوں سے متعلق بھی حکمت عملی مرتب کی جا چکی ہے ۔ رپورٹس کے مطابق اگر اتحادی مان گئے تو ٹھیک ورنہ ن لیگ مہتاب عباسی کو پیپلزپارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں میدان میں اتارے گی ۔
مولانا فضل الرحمن کی اہمیت
موجودہ سیاسی تناظر میں مولانا فضل الرحمن کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے ۔ ن لیگ کے صدر نے انہیں فون کیا اور پھر احسن اقبال کی قیادت میں ایک وفد نے مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی ۔
مسلم لیگ ن کے یہ تیور دیکھتے ہوئے پیپلزپارٹی کا بھی جے یو آئی کی جانب جھکاؤ بڑھ گیا ۔ صدر زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمن کو فون کیا اور وزارت عظمیٰ کیلئے امیدوار کی حمایت کی درخواست کی ۔ بعض ذرائع کے مطابق صدر نے جے یو آئی کو دوبارہ حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی تاہم دوسری جانب سے کیا جواب آیا اس پر متضاد اطلاعات ہیں ۔