رسائی کے لنکس

خواتین پولیس اہلکاروں کے کردار پر مباحثہ


حقوق نسواں کے عالمی دن کی مناسبت سے بدھ کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے تعاون سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ایسی پاکستانی خواتین کو مدعو کیا گیا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک ہیں۔

ان خواتین کو بلانے کا مقصد ان مسائل کو اجاگر کرنا تھا جن کا انھیں پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے میں تعینات پہلی خاتون افسر ثروت بٹ بھی اس تقریب میں موجود تھیں جنہوں نے بعد میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کو باعث اطمینان قرار دیا کہ ماضی کے برعکس قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

’’وویمن پولیس تھانے کو ہی آپ دیکھ لیں کہ پہلے جہاں آپ کو کسی تھانے میں ایک یا دو خواتین (اہلکار) بیٹھی نظر آتی تھیں لیکن اب خواتین کے تھانے بن گئے ہیں، ابھی مزید اس کو بہتر کرنا ہے اور خواتین کو با اختیار بنانا ہے۔ بااختیار بنانے کا یا خواتین کو آگے لانے کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی حدود کو پار کر رہی ہیں۔ جب تک خواتین اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اس وقت تک (ماحول) بہتر نہیں ہو سکتا‘‘۔

ثروت بٹ
ثروت بٹ


پولیس اہلکاروں کو تربیت فراہم کرنے والی امریکی ماہر ڈیفنا بلیک سی بھی تقریب میں شریک تھیں اور انھیں بتایا کہ پاکستان میں محکمہ پولیس کی خواتین اہلکاروں کی استعداد کار کو بہتر بنانے کے لیے بھی امریکہ نے ایک منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔

’’پاکستانی خواتین پولیس اہلکار اپنے معاشرے کی خدمت کرنا چاہتی ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر انداز میں نبھانا چاہتی ہیں۔ محکمہ پولیس کی خواتین اہلکاروں کو بھی علم اور مہارت کے حصول کا اتنا ہی تجسس ہے جتنا کہ مرد اہلکاروں کو ہوتا ہے‘‘۔

تقریب میں موجود خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن فوزیہ سعید نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں عورتوں کے تحفظ کے حوالے سے نمایاں بہتری آئی ہے۔

’’پچھلے چار سال میں ہم نے کافی پیش رفت کی ہے خواتین کے ایشوز کے حوالے، اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمیں حکومت اور پارلیمان سے بڑی مدد ملی۔۔۔۔ اس دفعہ متفقہ طور پر ہم نے کتنے قوانین منظور کروائے ہیں۔ متفقہ منظوری کا مطلب ہمارے لیے بہت زیادہ ہے اس کے معنی ہیں کہ ہمارے جتنے بھی لیڈران ہیں وہ سب مل کر اس کو سپورٹ کر رہے ہیں‘‘۔

فوزیہ سعید نے خاص طور پر موجودہ پارلیمان کی اس قانون سازی کا ذکر کیا جس کا مقصد ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا اور خواتین کے خلاف تشدد خاص طور پر تیزاب سے حملوں اور خاندانی غیرت کے نام پر ان کے قتل جیسے گھناؤنے جرائم کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔

پاکستان میں حقوق نسواں کا عالمی دن رواں برس ایک ایسے وقت منایا جا رہا ہے جب کہ نا صرف خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی کی گئی بلکہ ملک کے کئی اہم عہدوں پر بھی خواتین تعینات ہیں جن میں قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا، وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG