پاکستان کے الیکشن کمیشن نے خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین میں ضروری ترامیم کی تجویز دی ہے اور کمیشن کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ اس ضمن میں ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے کہا کہ ووٹنگ کے عمل میں خواتین کی شرکت کو روکنے کے رجحان کی مستقل حوصلہ شکنی کے لیے کمیشن کی طرف سے قوانین میں بعض ضروری ترامیم کی تجاویز بھی متعلقہ حلقوں کو بھیجی جا چکی ہیں۔
’’ہمارے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں ہے کہ خواتین کو گھروں سے نکال کے لائیں اور نا ہی (موجودہ قوانین کے مطابق خواتین کی) ووٹنگ لازمی ہے۔۔۔ اس میں ہم نے قانون میں یہ تجویز کیا ہے خواتین پولنگ اسٹیشن پر کم از کم دس سے پندرہ فیصد ووٹ پڑنے چاہئیں اگر نہیں پڑتے تو وہاں ری پول کیا جائے۔ اس سے الیکشن رزلٹ رک جائے گا اور پریشر بلڈ اپ ہو گا امیدواروں پر اور سیاسی جماعتوں پر کہ دس سے پندرہ فیصد خواتین کو ضرور لائیں‘‘۔
25 فروری کو ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے امیدواروں کی جیت کی خوشی میں سرعام ہوائی فائرنگ کے ان گنت واقعات کے علاوہ بعض حلقوں میں ایک بار سیاسی جماعتوں کے آپس کے معاہدوں کے نتیجے میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی کوششوں کے بعد ناقدین پاکستان میں مستقبل کے عام انتخابات کے پرامن اور شفاف انعقاد کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین کے ووٹ کے حق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے موقع پر ہونے والی ’’بے تحاشہ‘‘ فائرنگ کے واقعات کو مستقبل میں روکنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیوں کہ ریاست کا کوئی ایک ادارہ تن تنہا ایسی کارروائیوں کو نہیں روک سکتا۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے تیار کی گئی نئی کمپیوٹرائزڈ فہرستیں بھی بدھ کو ملک بھر میں 55 ہزار مقامات پر آویزاں کر دی ہیں۔
آٹھ کروڑ 30 لاکھ اہل ووٹروں پر مشتمل ان انتخابی فہرستوں میں اگر کسی ووٹر کے کوائف درست درج نا ہوں یا کسی کا نام شامل ہونے سے رہ گیا ہو، تو ایسے افراد اپنی شکایات 20 مارچ تک الیکشن کمیشن کے دفاتر میں جمع کرا سکیں گے۔
الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کے مطابق ووٹروں کے اعتراضات کو دور کرنے کے بعد حتمی فہرستیں مئی کے اواخر میں جاری کی جائیں گی۔ جب کہ ووٹ سے متعلق تفصیلات تک آسان رسائی کے لیے موبائل ’ایس ایم ایس‘ سروس کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔
اس سہولت کے تحت اہل ووٹر موبائل فون کے ذریعے 8300 پر اپنا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نمبر بھیج کر اپنے حلقے اور ووٹ کے اندارج سے متعلق دیگر بنیادی معلومات حاصل کر سکے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2008ء کے عام انتخابات میں 560 پولنگ اسٹیشون پر خواتین کی جانب سے کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا، ان میں سے 480 پولنگ اسٹیشن خیبر پختون خواہ میں واقع تھے۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی میانوالی اور مردان میں بعض حلقوں میں کئی سیاسی جماعتوں کے باہمی معاہدوں اور علاقائی روایات کے باعث خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ میانوالی سے مسلم لیگ (ن) کا امیدوار جب کہ مردان سے عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کا مشترکہ امیدوار کامیاب ہوا، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور انھیں اس ضمن میں قانون سازی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔