پاکستان میں ہفتے کو خواتین کا قومی دن منایا گیا جس کا مقصد انھیں درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ان کے کردار اور اہمیت کو سراہناہے۔
اس موقع پر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں خواتین پر تشدد اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایک سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ حالات بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جمہوری حکومت میں بھی خواتین قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی فرسودہ روایات کا شکار ہورہی ہیں چاہے وہ ونی ہویا کاروکاری، عورتوں پر بدستور ظلم کیا جارہا ہے۔
طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ قانون سازی سے زیادہ ان قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے قبائلی نظام میں موجود ان روایات کو ختم کرنا ہوگا، لینڈ رفامرز کرنا ہوں گی،عورتو ں کے حقوق کے راستے میں جو بھی دیگر رکاوٹیں ہیں جب تک انھیں دور نہیں کیا جاتا تو نہ صرف یہ مسائل جوں کے توں رہیں بلکہ بڑھتے جائیں گے۔
قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن انیس ہارون کا کہنا ہے خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال پہلے جیسی نہیں ہے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی ہوئی ہے اور گھریلو سطح پر تشدد کے خلاف بھی بل بننے جارہا ہے، تو صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے۔
تاہم انیس ہارون کا بھی یہ کہنا تھا کہ قانون سازی اور اس کا نفاذ دو مختلف چیزیں ہیں اور دیگر قوانین کی طرح خواتین کے حوالے سے بننے والے قوانین پر عمل درآمد ایک مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعلیمی نظام میں بہتری لا کر بھی خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے بقول ایسا روشن خیالی پر مبنی نظام تعلیم جس سے لوگوں کے ذہن کھلیں رائج کرنے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف خواتین بلکہ معاشرے کے ہرطبقے کی صورتحال بہتر ہوگی۔
قومی سطح پر یہ دن 12فروری 1983ء کو پیش آنے والے واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے جس میں حقوق نسواں سے وابستہ تنظیموں کی کارکنان فوجی صدر جنرل ضیاالحق کی طر ف سے خواتین کے خلاف امتیازی قوانین متعارف کروائے جانے کے خلاف ایک درخواست دائر کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ جارہی تھیں اور انھیں روکنے کے پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔