رسائی کے لنکس

'میں نے کہا اس کلاس میں ہر تجویز کی بنیاد منطق ہے'


حالیہ دنوں میں پاکستان کے چند اعلیٰ تعلیمی اداروں سے عمار علی جان، پرویز ہودبھائے اور صحافی محمد حنیف جیسے اساتذہ کی ملازمت ختم ہونے کے بعد ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ کسی ممکنہ ''منظم مہم'' کا حصہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات ستر اور اسّی کی دہائی میں بھی ہو چکے ہیں، جب اختلاف اور تنقیدی سوچ رکھنے والے اساتذہ کو تعلیمی اداروں سے نکالا گیا تھا۔

سّتر کی دہائی میں پنجاب یونی ورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک رہنے والے ڈاکٹر اکمل حسین نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ''میں کلاس لے رہا تھا، تو وہ پستول لے کر کلاس کے اندر آ گئے۔ مجھے کلاس کے سامنے مزاحمت کرنی پڑی۔ طلبا سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ اس کلاس کے اندر کسی بھی تجویز کی بنیاد منطق ہے۔ آپ کی تجویز کی بنیاد وہ پستولیں ہیں جو آپ نے اپنے ناف کے اندر چھپا رکھی ہیں۔ نکالیں اور ماریں مجھے''۔

ڈاکٹر اکمل حسین نے کہا کہ ''وہ مجھے دھمکا کر چلے گئے۔ انہوں نے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کو بھی دھمکایا کہ ان کو اگر نہ نکالا گیا، تو ہم آگ لگا دیں گے''۔

بقول ان کے، ''نہ صرف مجھے پڑھانے سے روک دیا گیا، بلکہ جو بھی دوسرے افراد آئے تھے، انہیں بھی نکال دیا گیا۔ مشاہد حسین سید صاحب کو بھی نکالا گیا''۔

بزرگ ماہر تعلیم پروفیسر عزیزالدین احمد نے اساتذہ کے خلاف اس مہم کا ذمہ دار سابق فوجی صدر ضیا الحق کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''ضیا الحق اس بارے میں بہت متفکر تھے کہ یہ طلبا ان کی آمریت کے خلاف باہر نہ نکل آئیں اور کوئی تحریک نہ بن جائے۔ یہ تھا اصل ڈر''۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیا الحق نے ان اساتذہ کو، جو ترقی پسندانہ سوچ رکھتے تھے یا جو جمہوریت چاہتے تھے، نکال باہر کیا۔ بقول ان کے، پنجاب کی یونیورسٹیوں کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ نہ صرف یونیورسٹیوں سے، بلکہ بہت سے کالجوں سے بھی اساتذہ کو نکالا گیا۔ ان کے بقول، صرف پنجاب کے کالجوں سے چھ سے زائد پرنسپل نکالے گئے۔ یہ بھی حربہ آزمایا گیا کہ اساتذہ کو ٹرانسفر کر کے دور دراز کے قصبوں کی جانب بھیج دیا گیا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید بھی اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ''جنرل ضیا کا دور تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگی تھی۔ اکتوبر 1979 کا زمانہ تھا۔ دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم تھی اس وقت، خاص کر اساتذہ میں۔ کیمپس میں ایک دو واقعات ہوئے تھے، تو ہم نے اس میں موقف اختیار کیا۔ اس ایکٹیوزم میں میں نے حصہ لیا''۔

انہوں نے بتایا کہ بشمول ان کے، بعض اساتذہ نے ہڑتال کی کال دی تھی، جس کے بعد ان سمیت پنجاب یونی ورسٹی سے عمر اصغر خان، عمیر ہاشمی، پروفیسر سجاد نصیر اور پروفیسر خالد محمود کو نکال دیا گیا تھا۔

اسّی کی دہائی میں یونیورسٹیوں سے نکالے جانے کے واقعات کی ذمہ داری ریاست پر ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''وہ" چاہتے تھے کہ کوئی اختلاف رائے نہ ہو۔ ایک دہشت کا احساس تھا اس زمانے میں کہ کہیں بھی کوئی سرکاری سچ کے خلاف نہ بولے۔ اس زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کی مخاصمت بھی عروج پر تھی''۔

انھوں نے بتایا کہ ایسے واقعات کے پیچھے ریاست کا ہاتھ تھا، اگرچہ اس کے لیے یونیورسٹی کی انتظامیہ کو استعمال کیا گیا۔

مشاہد حسین سید نے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات پر سینیٹ میں آواز اٹھائیں گے۔

ستّر کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا کے ناظم رہنے والے اور الخدمت فائنڈیشن کے صدر، محمد عبدالشکور کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں تشدد کی ابتدا پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ سّتر کی دہائی میں جاوید ہاشمی کے سٹوڈنٹس یونین کے صدر کے انتخاب کے دوران حملہ کیا گیا

ان کے بقول، یہ حملہ ووٹنگ روکنے کے لیے کیا گیا۔ ان کے الفاظ میں ''جب تشدد کا کلچر عام ہوا، تو میں یہ تو نہیں کہتا کہ جمعیت اس میں شامل نہیں ہوئی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے دباؤ آئے گا تو نوجوان خون میں بھی کچھ ردعمل ہوگا''۔

عبدالشکور نے اسّی کی دہائی میں اساتذہ کی برطرفیوں کے حوالے سے کہا کہ "یہ درست ہے کہ اس عرصے میں ایسے واقعات ہوئے ۔ اور ممکن ہے کہ اس میں لیفٹ کے لوگوں کا زیادہ دخل ہو، کیونکہ اس دوران افغانستان کے مسائل بھی تھے۔ اس زمانے میں جہاز بھی اغوا ہوئے تھے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی مسائل کا ایک سلسلہ چل رہا تھا۔ تو ظاہر ہے کہ اس کے امکانات زیادہ ہیں کہ ان پہ اس کے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہوں۔''

اساتذہ کی بر طرفی کے معاملے پر ڈاکٹر اکمل حسین کا کہنا تھا کہ "حکومت کو اور دوسرے اداروں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر ایک استاد آپ کی سوچ سے مختلف رائے رکھتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ باغی ہے اور آپ اسے باغی قرار دے کر نکال دیں"۔

XS
SM
MD
LG