پاکستان میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سیاسی تناؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اسپیکر کی جانب سے اگرچہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی حتمی تاریخ تاحال سامنے نہیں آئی تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ 28 مارچ کو کرائی جائے گی۔
عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے قبل حکومت کی جانب سے 27 مارچ کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ یکجہتی کے لیے عوامی جلسے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے 23 مارچ کو اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔
ایسے ماحول میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان تند و تیز بیان بازی کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حکومت اور حزب، اختلاف دونوں کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر احتجاج کے اعلانات کے بعد سیاسی کشیدگی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے حزبِ اختلاف کو تنبیہ کی ہے کہ حکومت کسی کو او آئی سی کانفرنس میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گی جو کہ اسلام آباد میں ہونے جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں 27 مارچ کے عوامی جلسے کے حوالے سے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں حصہ لینے والوں کو تحریکِ انصاف کے حامیوں کے اجتماع کے اندر سے گزر کر پارلیمنٹ تک جانا ہو گا۔
منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے یہ بیان حزبِ اختلاف کے لانگ مارچ کے جواب میں دیا ہے جو کہ او آئی سی کانفرنس کے دنوں میں ہی اسلام آباد میں کیا جا رہا ہے۔
’ملک کے مفاد میں جلسوں کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے‘
کشیدگی کے خدشے کے پیشِ نظر حکومت کی حلیف جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم چوہدری شجاعت حسین نے حکومت اور اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ ملک کے مفاد میں اعلان کردہ جلسوں کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حیرانگی ہے کہ اپوزیشن تو جلسوں کی سیاست کرتی ہی ہے مگر اس وقت حکومت بھی اس کے مقابلے میں جلسے کرنے لگ گئی ہے جو حکومت کا کام نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اس لڑائی میں کوئی مارا گیا یا کسی کو مروا دیا گیا تو سب پچھتائیں گے۔
’غیر متوقع صورتِ حال بھی سامنے آ سکتی ہے‘
سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں اسلام آباد میں جلسوں کے حوالے سے تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے 23مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان بہت پہلے کیا تھا جب کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ابھی طے نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ یومِ پاکستان کی پریڈ اور او آئی سی اجلاس دونوں انہی دنوں اسلام آباد میں ہونے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کا مارچ بھی ہو رہا ہو گا۔
خیال رہے کہ 22 مارچ کو اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں 47 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔
سلیم بخاری نے کہا کہ اگر حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں اپنے اعلانات پر قائم رہے تو پھر صورت حال گرفتاریوں، راستوں کی بندش اور تصادم کی طرف جا سکتی ہے اور اگر کسی طرف سے لچک نہیں دکھائی جاتی تو اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ برا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ صورتِ حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو پیچھے ہٹنا ہوگا ورنہ غیر متوقع صورتِ حال بھی سامنے آ سکتی ہے۔
عمران خان اتحادی جماعتوں کی حمایت کے لیے کوشاں
وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے، ملاقاتیں اور مشاورت کا عمل بھی جاری ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اپنی حلیف جماعتوں کا ساتھ برقرار رکھنے کے لیے خود سے اتحادی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
پیر کو عمران خان نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی رہنما فہمیدہ مرزا سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے پارلیمنٹ لاجز گئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما یہ بات دہرا رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوگی۔
تحریکِ عدم اعتماد کی وجہ سے افواہوں، اندازوں اور غیر یقینی کی فضا کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے تاحال اپنی حمایت یا مخالفت کا واضح اعلان نہیں کیا۔
حکومت کی اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں منگل کو قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں مولانا فضل الرحمٰن بھی شامل تھے۔ قبل ازیں پیر کو ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے ملاقات کی تھی۔
’تحریک انصاف کے اندروانی اختلافات بھی عمران خان کو کمزور بنائے ہوئے ہیں‘
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی اتحادی جماعتوں کو ساڑھے تین سال میں وہ اہمیت نہیں دی جو کہ اب انہیں مجبوراََ دینی پڑ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت عجیب و غریب صورتِ حال ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے تاحال عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت یا مخالفت کا واضح اعلان نہیں کیا جو کہ اس صورتِ حال کو گھمبیر بنائے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ روابط بڑھانے اور بات چیت کا سلسلہ بہت پہلے شروع کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ ملاقاتوں سے ملنے والے اشاروں سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتحادیوں کے حوالے سے معاملات عمران خان کے حق میں جاتے دکھائی نہیں دے رہے۔
سلیم بخاری کے مطابق تحریک انصاف کے اندروانی اختلافات بھی عمران خان کو کمزور بنائے ہوئے ہیں۔