ہر سال کی طرح 2021 میں بھی ناظرین نے کئی ٹی وی ڈراموں کو پسند کیا اور اس میں نمایاں ہونے والے کرداروں کو سراہا۔ لیکن ماضی کے ڈراموں اور 2021 میں نشر ہونے والے ڈراموں میں ایک واضح فرق نظر آیا جو خوش آئند بات ہے۔
پہلے کے ڈراموں میں جہاں مردوں کے کردار کو مضبوط دکھایا جاتا تھا وہیں اس سال نشر ہونے والے ڈراموں میں خواتین کے کردار ان سے کم نہیں تھے۔
ڈراموں میں نہ صرف خواتین کو سخت جان دکھایا گیا بلکہ ان کی ہمت اور جرات کو دیکھ کر ناظرین نے بھی سبق سیکھا۔
اگر 'ٍپھانس' میں زیبا کے کردار کی بات کی جائے یا اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے لڑکے کی ماں نادیہ کی، یا پھر 'ڈنک' میں اس وقت اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑی ہونے والی ماں کا کردار ہو۔ 'آخر کب تک' میں بھی اپنی بہن کے لیے سب سے ٹکر لینے والی نور سمیت ان کرداروں کو سال 2021 کی مضبوط اعصاب والی خواتین کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔
آئیے ایسے ہی چند کرداروں پر نظر ڈالتے ہیں جو مرکزی نہ سہی لیکن ڈرامے میں اپنی ہمت کی وجہ سے اہم بن کر سامنے آئے اور ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔
'رقیب سے' کی حاجرہ
بی گُل کا لکھا ہوا یہ کردار سال کے مضبوط ترین کرداروں میں سے ایک ہے۔ ثانیہ سعید نے 'حاجرہ' کے کردار میں جان ڈال کر دیکھنے والوں کو بتایا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے شوہر سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اس کے لیے سب کچھ برداشت کرنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
ہم ٹی وی پر چلنے والے اس ڈرامے میں جب حاجرہ کے شوہر مقصود (نعمان اعجاز) کی سابقہ محبت سکینہ (حدیقہ کیانی) رات گئے ان کے گھر آ جاتی ہے تو حاجرہ نہ صرف ان کے رہنے کا انتظام کرتی ہے بلکہ انہیں مہمانوں کی طرح رکھتی ہے۔
یہی نہیں اپنی بیٹی انشا (فریال محمود) کے بار بار طعنے دینے پر بھی وہ ان ماں بیٹی کو گھر سے نہیں نکالتی جس کی وجہ سے اس کے گھر کا سکون برباد ہو رہا ہوتا ہے۔
'ڈنک' کی صبا
'اے آر وائی' ڈیجیٹل پر نشر ہونے والا یہ ڈرامہ آغاز سے ہی تنقید کا شکار رہا۔ اس کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے فائدے کے لیے دوسروں پر جھوٹا الزام لگاتی ہے۔
لیلیٰ واسطی نے اس ڈرامے میں اس لڑکی کی ماں کا کردار ادا کیا جس کی بڑی بہو (ثنا جاوید) پہلے اپنے استاد پر جھوٹا الزام لگا کر اسے رسوا کرتی ہے اور بعد میں اپنے سابق منگیتر اور شوہر کے چھوٹے بھائی حیدر (بلال عباس) پر زیادتی کا الزام لگاتی ہے، جس کے بعد سارا خاندان حیدر کے خلاف ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر کوئی اس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے تو وہ حیدر کی ماں ہے جو اپنے شوہر، بہو، بڑے بیٹے اور سارے خاندان کے خلاف ہو کر اپنے بیٹے کو حکم دیتی ہے کہ اگر وہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن اسے اس کی ماں کے نام سے پکارا جائے تو اسے اپنے اوپر لگا یہ داغ دھونا پڑے گا۔
لیلیٰ واسطی کی اداکاری نے اس منظر کو چار چاند تو لگائے ساتھ ہی ناظرین کو یہ بھی بتایا کہ حق اور باطل کی لڑائی میں اگر ماں حق کا ساتھ دے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ہرا نہیں سکتی۔
'آخر کب تک' کی نور
ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں اشنا شاہ نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جو اپنی معصوم بہن کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔
اسکول کے زمانے سے لے کر اپنی بہن (صرحا اصغر) کی شادی کے بعد تک وہ اس کی حفاظت کرتی ہے اور اسی وجہ سے اشنا شاہ نے اس مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی کے کردار سے سب کے دل جیت لیے۔
ریدان شاہ کے لکھے ہوئے اس کردار کو اداکارہ اشنا شاہ نے ایک نڈر اور با اعتماد لڑکی کی حیثیت سے بخوبی نبھایا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ڈرامے کے نشر ہونے کے بعد جب بھی لڑکیاں ان سے ملتی ہیں تو یہی کہتی ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ اس ڈرامے میں ان کی کہانی بیان کی جا رہی ہے۔
'دل ناامید تو نہیں' کی سنبل
آمنہ مفتی کے لکھے ہوئے ڈرامے میں اداکارہ یمنیٰ زیدی نے سنبل کا کردار ادا کیا جو پیسوں کے بدلے پُرتعیش پارٹیوں کی رونق بڑھانے کا کام کرتی ہے لیکن وہ آگے جا کر اسی گروہ کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔
یمنیٰ زیدی نے رواں برس کئی ڈراموں میں کام کیا اور گزشتہ سال متعدد ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔
لیکن یہ سنبل کا کردار ان کے کریئر کے منجھے ہوئے کرداروں میں سے ایک ہے۔
'ڈنک' کی سائرہ
ویسے تو اس ڈرامے میں مرکزی کردار بلال عباس اور ثنا جاوید نے ادا کیا ہے لیکن ہر کردار ہی اس ڈرامے میں اہم بن کر سامنے آیا۔
اس ڈرامے میں یسرہ رضوی نے ایک ایسے شخص کی بیوی کا کردار ادا کیا جو بے قصور ہونے کے باوجود خود کشی کر کے اسے مزید مشکل میں ڈال دیتا ہے لیکن وہ حالات کا مقابلہ جس بہادری سے کرتی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اے آر وائی پر چلنے والے اس ڈرامے میں ثنا جاوید کی امل کے سامنے ایک نہیں، بلکہ متعدد خواتین کو کھڑا کیا گیا جنہوں نے اس کے جھوٹ کو سچ نہ ثابت ہونے دیا۔ جہاں لیلیٰ واسطی نے گھر میں اسے رسوا کیا وہیں یسرہ رضوی نے ڈرامے کی آخری قسط میں عدالت میں امل کے جھوٹ کو بے نقاب کیا۔
'پھانس' کی زیبا
زارا نور عباس نے 'پھانس' میں زیادتی کا شکار ہونے والی ایک لڑکی کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔
ڈرامے میں وہ منظر جن میں وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے اور جب اس کی بات کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس میں ان کی اداکاری بہترین رہی۔
انہوں نے اس کردار کے ذریعے لوگوں کو بتایا کہ سچ اور جھوٹ کی جنگ میں جس نے بھی سچ کا ساتھ دیا، وہ سرخرو ہوا۔
جس وقت یہ ڈرامہ ٹی وی پر نشر ہو رہا تھا ہر کوئی زارا نور عباس کی پرفارمنس کی داد دے رہا تھا کیوں کہ انہوں نے ایک ایسی معصوم لڑکی کا کردار ادا کیا جسے پڑھنے لکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ اور اس نے ایک نڈر عورت تک کا سفر بڑی ہمت سے طے کیا۔
'پہلی سی محبت ' کی نرگس
'اے آر وائی' پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں رابعہ بٹ کو مایا علی کی سوتیلی ماں کے رول میں کاسٹ کیا گیا۔
لیکن یہ سوتیلی ماں کوئی عام عورت نہیں تھی ایک تو اس کا تعلق بازارِ حسن سے ہوتا ہے تو دوسرا وہ اپنے شوہر (شبیر جان) سے بے حد محبت کرتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اس کی اولاد کو بھی چاہتی ہے۔
ڈرامے کے آغاز میں جب نرگس (رابعہ بٹ) شادی کے بعد پہلی بار اپنی سسرال آتی ہے تو پورا محلہ اس کے خلاف اکٹھا ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ ہمت نہیں ہارتی اور پہلے اپنے شوہر کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے اور پھر اپنی سوتیلی بیٹی (مایا علی) کے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے جسے جس لڑکے سے محبت ہوتی ہے اس کا بڑا بھائی نرگس کو پسند نہیں کرتا۔
انجم شہزاد کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں رابعہ بٹ کی اداکاری کو سب ہی نے پسند کیا۔
'پردیس' کی ایمن
اسی اور نوے کی دہائی میں بہتر مستقبل کی خاطر کئی پاکستانیوں نے دوسرے ملک میں جا کر نوکری کو ترجیح دی۔
اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر باہر جانے والوں پر تو کئی ڈرامے بنے۔ لیکن ثروت نذیر نے جس طرح اس ڈرامے میں ان بچوں کی کہانی بیان کی جو بن باپ کے بڑے ہوتے ہیں اس کی وجہ سے یہ ڈرامہ کافی مقبول ہوا۔
مرینہ خان کی ہدایات میں بننے والا یہ ڈرامہ 'اے آر وائی ڈیجیٹل' پر نشر ہوا اور اس میں اداکارہ درفشاں نے ایمن نامی ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جس کا باپ (سرمد کھوسٹ) اس کے بچپن میں ہی باہر چلا گیا تھا اور جس کی ماں (شائستہ لودھی) نے اسے بڑی محنت سے پالا۔
ماں کو سسرال میں بے یارو مددگار پڑا دیکھ کر ایمن فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کرے گی جو اس کے ساتھ رہے نہ کہ باہر کمانے چلا جائے۔
جب ایمن کا باپ مرنے سے پہلے اس کی شادی کے لیے رشتہ تجویز کرتا ہے تو بجائے باپ کے کہنے پر وہ ایک ایسے لڑکے کا نام تجویز کرتی ہے جو اسی کے ساتھ رہے گا۔ نہ کہ اس کے باپ کی طرح جو ساری زندگی ملک سے باہر گزارے گا۔
'لاپتہ' کی فلک
عموماً پاکستانی ڈراموں میں اگر لڑکی پر کوئی ہاتھ اٹھائے تو وہ جواب میں رونا شروع کر دیتی ہے۔
لیکن 'لاپتہ' میں سارہ خان نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جسے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا آتا تھا۔ جب ڈرامے میں اس کے شوہر کا کردار ادا کرنے والے گوہر رشید نے اسے تھپڑ مارا تو سارہ خان کے کردار فلک نے اس کا جواب ایک اور تھپڑ سے دیا
ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے اس ڈرامے کی ہدایات خضر ادریس نے دی ہے اور اس میں سارہ خان کو ایک مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی کے طور پر دکھایا گیا۔
وہ گزشتہ برس بھی 'ثبات' نامی ڈرامے میں اسی قسم کا کردار ادا کر چکی تھیں، لیکن جہاں 'ثبات' میں وہ ڈرامے کی ولن تھیں یہاں وہ ان ہزاروں لڑکیوں کی ہیرو بن کر سامنے آئیں جن پر ان کے شوہر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
'پھانس' کی نادیہ
پاکستانی ڈراموں میں ماں کا کردار ادا کرنے والی اداکاراؤں کے لیے زیادہ آپشنز نہیں ہوتے لیکن 'پھانس' میں جس عمدگی سے ارجمند رحیم نے یہ کردار نبھایا وہ ان کی ساتھی اداکاراؤں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔
ڈرامے کے آغاز میں وہ ایک ایسی مالکن کے روپ میں نظر آئیں جو اپنے گھر میں کام کرنے والوں کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آتی ہیں۔
لیکن جب ان کی نوکرانی کی بیٹی زیبا ان کے دماغی طور پر بیمار بیٹے ساحل پر زیادتی کا الزام لگاتی ہے تو وہی شفیق مالکن اپنے بیٹے کی بے گناہی کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے۔
اس ڈرامے کی خاص بات یہ تھی کہ جب نادیہ (ارجمند رحیم) کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا بیٹا ساحل (شہزاد شیخ) واقعی مجرم ہے تو وہ مظلوم لڑکی زیبا (زارا نور عباس) کے حق کے لیے اپنے ہی گھر والوں کے خلاف ہو جاتی ہے اور اپنی نوکرانی کی بیٹی کو انصاف دلانے کے لیے عدالت بھی جاتی ہے۔
اور آخر میں بات 'صنفِ آہن' کی۔ اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں ایک دو نہیں بلکہ متعدد خواتین اداکاروں کو پاکستانی فوج میں بھرتی ہوتے اور پھر اپنی ہمت، شجاعت اور قابلیت پر آگے بڑھتے دکھایا گیا ہے۔
اس ڈرامے میں جہاں سجل علی، کبرٰی خان، یمنیٰ زیدی، سائرہ یوسف اور رمشا خان کو روتی دھوتی عورت کے بجائے مضبوط ارادوں کی مالک خاتون دیکھایا ہے، وہیں پاک فوج کی بھی تشہیر کی گئی ہے۔