جمعرات 10جنوری، کوئٹہ کے علمدار روڈ پر رات 9 بجے کے آس پاس ایک زور دار دھماکا ہوا اور آناً فاناً 80 سے زائد افراد ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سو گئے جبکہ متعدد افراد زخموں سے چور ہوکر اسپتال پہنچ گئے۔
جنہیں موت نے سلادیا وہ ایک ہی بار میں سارا درد سہہ گئے، جو زخمی ہوئے وہ بھی کچھ دن یا کچھ ہفتوں بعدزندگی کی رونقوں میں دوبارہ مگن ہوجائیں گے۔ لیکن اس سانحے سے جڑے ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کی روح پرکبھی نہ بھرنے والے زخم آئے۔۔ جنہوں نے اپنوں کو، اپنے ہی ہاتھوں زمین کے اندھیرے گڑھے میں لٹا دیا۔۔ کہ وہ زندہ تو ہیں مگر زندگی ان کے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔
نجی ٹی وی کے صحافیوں عمران شیخ کے اہل خانہ، سیف الرحمن کے بیوی بچے اور نہ جانے ایسے کتنے ہی افراد ہیں جنہیں دہشت گردوں نے ناکردہ جرم کی سزا دی۔۔ سزا بھی وہ جس میں زندگی ہی قید ہوگئی ہے۔
دھماکے کی کوریج پر مامور اور نجی ٹی وی ’سماء‘ سے وابستہ اور اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے صحافی سیف الرحمن کے بھائی محمد اسلم 'وائس آف امریکہ' کو بتاتے ہیں، ”سیف چلا گیا۔۔۔ لیکن ہمیں جیتے جی مار گیا۔ والدہ سیف کی موت پر غم سے اب تک نڈھال ہیں۔ ان کی آنکھیں رو رو کر سرخ انگارہ بنی ہوئی ہیں۔۔ ان کے پاس اپنے دکھ کا اظہار کرنے کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ اب بھی زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔۔۔ اور سیف کے بیٹے منیب الرحمن کا معصوم سا اظہار خیال کہ میں بڑا ہو کر ابو کی طرح نڈر صحافی بنوں گا۔۔ یہ سب کچھ لمحہ لمحہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کررہا ہے۔۔“
سیف الرحمن 25 اگست 1978ء کو کوئٹہ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام سرفراز تھا۔ سیف تین بھائیوں میں دوسرے نمبرپر تھے۔ محمد اسلم ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
'وائس آف امریکہ' کے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں محمد اسلم کا کہنا تھا کہ جوں جوں دن گزر ررہے ہیں، دکھ بڑھتا جارہا ہے۔ والد تو پندرہ سال قبل ہی ساتھ چھوڑ گئے تھے لیکن سیف کے جانے کے بعد ہمارا خاندان پھر یتیم سا ہوگیا ہے۔ سیف ہرکسی کا دکھ بانٹتا تھا۔ ہرکسی کی مدد کرتاتھا۔ اس کی موت پر علاقے کے لوگ بھی بہت اداس ہیں۔ کہتے ہیں سیف جیسا دوسرا کہاں سے لائیں؟؟"
سیف الرحمن نے 1999ء میں ایک چھوٹے سے اخبار سے صحافت کا آغاز کیاتھا۔ محمد اسلم کا کہنا ہے کہ "سیف کوئٹہ کے حالات پر بہت فکر مند تھے۔ انہوں نے کئی صحافی ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں۔ ان کا ایک دوست بازو سے بھی محروم ہوگیا۔ موت سے کچھ عرصہ پہلے سیف الرحمن نے اپنے سب سے بڑے بھائی سے کراچی منتقل ہونے کی بات کی تھی مگرقسمت کو یہ منظور نہ تھا۔“
محمد اسلم نے بتایا کہ سیف الرحمن کی شادی کی سالگرہ بھی 12جنوری کو ہی ہوتی ہے۔ سالگرہ اور برسی کا ایک ہی دن، سیف الرحمن کی بیوہ اور بچوں کے لئے ہمیشہ کا دکھ بن گیا ہے۔ وہ 10جنوری کو زخمی ہوکر 12 جنوری کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی شادی 2002ء میں ہوئی تھی۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔ تین سال کا صہیب الرحمن، چھ سال کا عبیدالرحمن اورسب سے بڑا دس کا منیب الرحمن۔
محمد اسلم نے بتایا ”دہشت گردوں نے جس شمع کو بجھا دیا ہے منیب الرحمن اسے دوبارہ روشن کرنا چاہتا ہے۔ منیب سمجھدار ہے۔ اندر ہی اندر گھٹ رہا ہے۔ خاموش رہتا ہے۔ اس کا دل بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ صہیب ابھی چھوٹا ہے ہم نے اسے بتایا ہے کہ ابو دبئی گئے ہیں کچھ دنوں میں واپس آجائیں گے۔۔“
محمد اسلم مزید کہتے ہیں ”حکومت نے اعلان کیا تھا کہ امداد کرے گی لیکن ابھی تک کوئی نہیں آیا، نہ کسی نے رابطہ کیا۔ حکومت پوچھے نہ پوچھے لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ سیف الرحمن کا قصور کیا تھا۔۔ وہ ایک صحافی تھا۔۔ غیرجانبدار تھا۔ ۔جو سچ تھا وہ دنیا کے سامنے لارہاتھا۔ یہ دہشت گرد آخر کب تک معصوم لوگوں کا خون کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک؟"
جنہیں موت نے سلادیا وہ ایک ہی بار میں سارا درد سہہ گئے، جو زخمی ہوئے وہ بھی کچھ دن یا کچھ ہفتوں بعدزندگی کی رونقوں میں دوبارہ مگن ہوجائیں گے۔ لیکن اس سانحے سے جڑے ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کی روح پرکبھی نہ بھرنے والے زخم آئے۔۔ جنہوں نے اپنوں کو، اپنے ہی ہاتھوں زمین کے اندھیرے گڑھے میں لٹا دیا۔۔ کہ وہ زندہ تو ہیں مگر زندگی ان کے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔
نجی ٹی وی کے صحافیوں عمران شیخ کے اہل خانہ، سیف الرحمن کے بیوی بچے اور نہ جانے ایسے کتنے ہی افراد ہیں جنہیں دہشت گردوں نے ناکردہ جرم کی سزا دی۔۔ سزا بھی وہ جس میں زندگی ہی قید ہوگئی ہے۔
دھماکے کی کوریج پر مامور اور نجی ٹی وی ’سماء‘ سے وابستہ اور اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے صحافی سیف الرحمن کے بھائی محمد اسلم 'وائس آف امریکہ' کو بتاتے ہیں، ”سیف چلا گیا۔۔۔ لیکن ہمیں جیتے جی مار گیا۔ والدہ سیف کی موت پر غم سے اب تک نڈھال ہیں۔ ان کی آنکھیں رو رو کر سرخ انگارہ بنی ہوئی ہیں۔۔ ان کے پاس اپنے دکھ کا اظہار کرنے کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ اب بھی زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔۔۔ اور سیف کے بیٹے منیب الرحمن کا معصوم سا اظہار خیال کہ میں بڑا ہو کر ابو کی طرح نڈر صحافی بنوں گا۔۔ یہ سب کچھ لمحہ لمحہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کررہا ہے۔۔“
سیف الرحمن 25 اگست 1978ء کو کوئٹہ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام سرفراز تھا۔ سیف تین بھائیوں میں دوسرے نمبرپر تھے۔ محمد اسلم ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
'وائس آف امریکہ' کے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں محمد اسلم کا کہنا تھا کہ جوں جوں دن گزر ررہے ہیں، دکھ بڑھتا جارہا ہے۔ والد تو پندرہ سال قبل ہی ساتھ چھوڑ گئے تھے لیکن سیف کے جانے کے بعد ہمارا خاندان پھر یتیم سا ہوگیا ہے۔ سیف ہرکسی کا دکھ بانٹتا تھا۔ ہرکسی کی مدد کرتاتھا۔ اس کی موت پر علاقے کے لوگ بھی بہت اداس ہیں۔ کہتے ہیں سیف جیسا دوسرا کہاں سے لائیں؟؟"
سیف الرحمن نے 1999ء میں ایک چھوٹے سے اخبار سے صحافت کا آغاز کیاتھا۔ محمد اسلم کا کہنا ہے کہ "سیف کوئٹہ کے حالات پر بہت فکر مند تھے۔ انہوں نے کئی صحافی ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں۔ ان کا ایک دوست بازو سے بھی محروم ہوگیا۔ موت سے کچھ عرصہ پہلے سیف الرحمن نے اپنے سب سے بڑے بھائی سے کراچی منتقل ہونے کی بات کی تھی مگرقسمت کو یہ منظور نہ تھا۔“
محمد اسلم نے بتایا کہ سیف الرحمن کی شادی کی سالگرہ بھی 12جنوری کو ہی ہوتی ہے۔ سالگرہ اور برسی کا ایک ہی دن، سیف الرحمن کی بیوہ اور بچوں کے لئے ہمیشہ کا دکھ بن گیا ہے۔ وہ 10جنوری کو زخمی ہوکر 12 جنوری کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی شادی 2002ء میں ہوئی تھی۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔ تین سال کا صہیب الرحمن، چھ سال کا عبیدالرحمن اورسب سے بڑا دس کا منیب الرحمن۔
محمد اسلم نے بتایا ”دہشت گردوں نے جس شمع کو بجھا دیا ہے منیب الرحمن اسے دوبارہ روشن کرنا چاہتا ہے۔ منیب سمجھدار ہے۔ اندر ہی اندر گھٹ رہا ہے۔ خاموش رہتا ہے۔ اس کا دل بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ صہیب ابھی چھوٹا ہے ہم نے اسے بتایا ہے کہ ابو دبئی گئے ہیں کچھ دنوں میں واپس آجائیں گے۔۔“
محمد اسلم مزید کہتے ہیں ”حکومت نے اعلان کیا تھا کہ امداد کرے گی لیکن ابھی تک کوئی نہیں آیا، نہ کسی نے رابطہ کیا۔ حکومت پوچھے نہ پوچھے لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ سیف الرحمن کا قصور کیا تھا۔۔ وہ ایک صحافی تھا۔۔ غیرجانبدار تھا۔ ۔جو سچ تھا وہ دنیا کے سامنے لارہاتھا۔ یہ دہشت گرد آخر کب تک معصوم لوگوں کا خون کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک؟"