رسائی کے لنکس

امریکی مارکیٹ پاکستانی آموں کی منتظر


امریکی مارکیٹ پاکستانی آموں کی منتظر
امریکی مارکیٹ پاکستانی آموں کی منتظر

امریکہ پاکستانی آموں کا منتظر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ امریکی مارکیٹوں میں میکسیکو اور ہیٹی کے آموں کے ساتھ پاکستانی آم بھی دکھائی دیں گے۔ تاہم اپنے ذائقے، خوشبو، مٹھاس اور دیگر خوبیوں کی بنا پر پاکستانی آموں کی دنیا میں کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ اور اگر آموں کے رسیا اور اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کو یہ علم ہوتا کہ ان کی وفات کےکوئی دوسو برس بعد اسی خطے کا ایک ملک پاکستان دنیا کے بہترین آم پیدا کررہا ہوگا تو وہ ہرسال اپنی تاریخ وفات نکالنے کی بجائے درازی عمر کی دعا مانگتے۔

پاکستانی آم کے بارے میں دنیا بھر کے زرعی سائنس دانوں کی متفقہ رائے ہے کہ اس سے زیادہ میٹھا اور خوش ذائقہ آم کرہ ارض پر کہیں اور پیدا نہیں ہوتا۔

پاکستانی آموں کی درجنوں اقسام ہیں، مگر ان میں سے صرف وہی اقسام امریکی کراسری اسٹوروں میں دکھائی دیں گی جو زیادہ دیر تک اپنی تازگی برقرار رکھ سکتی ہیں اور جن میں خود کو جراثیموں سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں جو امریکی محکمہ زراعت کے مقرر کردہ معیار پر پورے اترتی ہیں۔

امریکی مارکیٹوں میں پاکستانی آم کی رونمائی جون میں متوقع ہے۔

پاکستان آم پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور اس کی سالانہ پیداواراٹھارہ لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہے۔ آم کی قیمت اور طلب میں اضافے کے رجحان سے پاکستان میں آم کے زیر کاشت رقبے میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جس سے آنے والے برسوں میں اس کی پیداوار نمایاں طورپر بڑھنے کا امکان ہے۔

اٹھارہ لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے مقابلے میں پاکستانی آم کی برآمدمحض سوا لاکھ ٹن کے قریب ہے،جو زیادہ تر خلیجی ریاستوں کو بھیجا جاتا ہے جب کہ اس کا محض چھٹا حصہ چند یورپی ممالک میں برآمد ہوتا ہے۔

امریکی مارکیٹ پاکستانی آموں کی ایک نئی اور منافع بخش منزل ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق سات سے دس لاکھ تک پاکستانی آباد ہیں جو ایک عرصے سے اپنے وطن کے آموں کے نہ صرف منتظر ہیں بلکہ یہاں ان کی درآمد ممکن بنانے کے لیے ہر ممکن کوششیں بھی کررہے ہیں۔

پاکستانیوں کے علاوہ امریکہ میں بھارت ، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے کئی دوسرے ممالک کے لاکھوں لوگ آباد ہیں جن کے پسندیدہ پھلوں میں آم شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکیوں میں بھی آم کی مقبولیت بڑی ہے اور وہ میکسیکو کے آم خریدتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔

امریکی کراسری اسٹوروں پر عموماً میکسیکو کے دواقسام کے آم نظر آتے ہیں ۔ پہلی قسم کے آم سائز میں کافی بڑے ہوتے ہیں، ان کی رنگت سزی مائل سرخ ہوتی ہے۔ دیکھنے میں یہ آم بہت خوش نما لگتے ہیں مگر اس میں خوشبو ہوتی ہے نہ ذائقہ ۔ اس کی گٹھلی موٹی ، گودا کم اور ریشہ زیادہ ہوتاہے۔ دوسری قسم کا آم سائز میں اس سے قدرے چھوٹا اور زرد رنگت کا ہوتا ہے۔ یہ آم نسبتاًمیٹھا ہوتا ہے اور اس میں ریشہ بھی کم ہوتا ہے۔ہیٹی کا آم ذائقے اور مٹھاس میں ان دونوں سے بہتر ہے۔ تاہم اس کا پاکستانی آم سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔

پاکستانی آم یونہی اچانک امریکی مارکیٹ میں نہیں پہنچ رہا بلکہ اس سلسلے میں بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ یوایس ایڈ، پاکستانی آم کو خوراک سے متعلق امریکی اداروں کے معیار کے مطابق بنانے کے لیے پاکستان کے محکمہ خوراک و زراعت اور آم اگانے والوں کے ساتھ مسلسل کام کررہاہے ۔

یوایس ایڈ نے پنجاب اور سندھ میں واقع آم کے 15 سے زیادہ باغات کو خصوصی مشنیری کی خرید ، تنصیب اور تربیت میں مدد فراہم کی ہے۔ ان باغات میں پھلوں کی پراسسنگ کے یونٹ لگائے گئے ہیں، جن میں آموں کی صفائی، درجہ بندی،اسے زیادہ عرصے تک تازہ رکھنے اور جراثیموں سے بچانے کی ٹرٹیمنٹ اور پیکنگ شامل ہے۔ اس کے علاوہ آموں کو زیادہ مدت تک محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی کولڈ اسٹوریج بھی قائم کیے گئے ہیں۔

ماہرین کو توقع ہے آئندہ چند برسوں میں پھلوں کے پراسسنگ یونٹوں کی تعداد15 سے بڑھ کر تین سو تک پہنچ جائے گی۔ جس سے آم کے ساتھ ساتھ دوسرے پھلوں اور سبزیوں کی پراسسنگ اور ان کی برآمدبڑھانے میں مدد ملے گی۔اس وقت پاکستانی سبزیاں فضائی ذریعے سے خلیجی ممالک اور محدود پیمانے پر کینڈا میں بھیجی جارہی ہیں، جس سے ان کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تاہم پراسسنگ سے ان کی شیلف لائف بڑھ جائے گی اور انہیں سمندری راستے بھی بھیجا جاسکے گا۔ جس سے ان کی قیمت میں کمی اور برآمد میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان میں بڑی تعداد میں پھل اور سبزیاں پیدا کی جاتی ہیں مگران کی پراسسنگ اور ٹریٹمنٹ کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث اس کا بڑا حصہ مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی شعبہ اپنی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ کرسکتا ہے۔

اس وقت پاکستانی آم کی برآمد تقریباً تین کروڑ ڈالر سالانہ ہے جب کہ یوایس ایڈ کو توقع ہے کہ پراسسنگ یونٹوں کی تنصیب سے آئندہ تین برسوں میں پاکستان اس فیصل سےچھ کروڑ ڈالر کی آمدنی حاصل کرنے لگے گا۔

امریکہ میں پاکستانی آم کی پہلی کھیپ آئیوا میں قائم ٹریٹمنٹ سینٹر میں پہنچے گی ، جہاں ٹریٹمنٹ کے بعد اسے ان شہروں کی مارکیٹوں میں بھیج دیا جائے گا جہاں پاکستانی اور ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

XS
SM
MD
LG