پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ روس کی جاری جنگ میں پاکستان نے یوکرین کے استعمال کے لیے ہتھیار فروخت نہیں کیے۔ انہوں نے اس طرح کی رپورٹس کو "کنفیوژن" قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان نے یوکرین کے لیے امریکہ کو اسلحہ فروخت نہیں کیا۔
نگراں وزیرِ اعظم کے بقول ہم اس معاملے کی تحقیقات کریں گے کہ آیا پاکستانی اسلحہ کہیں اور تو نہیں پہنچا۔ لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہمارے ہتھیار اس معاملے کے لیے یوکرین یا کسی اور جگہ کے لیے بالکل نہیں تھے۔
واضح رہے کہ ایک پاکستانی آن لائن نیوز پلیٹ فارم' سوچ' نے ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں دو امریکی کمپنیوں کو پاکستانی چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود کی فروخت کا ذکر کیا تھا اور اس ضمن میں خریداری کا ڈیٹا بھی پیش کیا تھا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہم صرف اس بات کی کھوج کر رہے ہیں کہ یہ سارا کنفیوژن کیسے پیدا ہوا اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔ نگراں وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت اس مسئلے پر پہلے ہی واشنگٹن میں "متعلقہ حکام کے ساتھ مختلف سفارتی چینلز پر" بات کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں پاکستان نے غیرجانبدارانہ پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے فروری 2022 میں جب ماسکو کا دورہ کیا تو اسی روز روس نے یوکرین پر حملہ کردیا تھا۔ جس پر اسلام آباد کو شرمندگی اور واشنگٹن نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
افغانستان
پاکستان سے افغان باشندوں کی بے دخلی اور اس کے نتیجے میں کیا پاکستان محفوظ ہو جائےگا؟ اس سوال کے جواب میں نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یہ انسدادِ دہشت گردی کا حربہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کے ساتھ ایک منظم عمل چاہتے ہیں۔یہی بنیادی ہدف ہے۔
پاکستان اس وقت لگ بھگ 17 لاکھ ایسے افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کے عمل سے گزر رہا ہے جن کے پاس رہائش کے قانونی دستاویز نہیں ہیں۔
اسلام آباد کا الزام ہے کہ افغان باشندے ملک میں کئی حالیہ دہشت گرد حملوں میں ملوث ہیں اور کابل میں موجود طالبان حکومت نےپاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے خلاف ناکافی اقدامات کیے ہیں۔
طالبان حکومت سے متعلق انوار الحق کاکڑ کے حالیہ بیانات نے تنازع کو جنم دیا ہے۔نگراں وزیرِ اعظم نے اس ضمن میں اپنے الفاظ کے چناؤ کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ "ڈی فیکٹو " کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت کے قانونی ہونے کا فیصلہ افغان عوام پر منحصر ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے اس بات کی بھی تردید کی کہ پاکستان نے کبھی افغان طالبان کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے اُس وقت کے باغیوں کو پناہ فراہم کرنے کی رپورٹس کو بھی مبالغہ آمیز قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ آئندہ جب بھی ہمیں علاقائی جنگوں میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر انتخاب کرنا پڑے تو ہمیں اپنے انتخاب سے پہلے مزید غور و فکر کرنا چاہیے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو غلط موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور اس کی جانی و معاشی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
چین
پاکستان چین کے گلوبل بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے لگ بھگ 65 ارب ڈالر کے فلیگ شپ منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے اس خیال کو مسترد کیا کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام اور خراب سیکیورٹی صورتِ حال پاکستان کو چین کے لیے کم پرکشش بنا رہی ہے۔ان کے بقول پاکستان اپنے آپ میں ایک درمیانے سائز کی مارکیٹ ہے۔
اپنے حالیہ دورۂ چین کا ذکر کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ سنکیانک میں گزارے وقت کے دوران انہوں نے کوئی "نام نہاد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں" نہیں دیکھیں۔ ان کے بقول انہوں نے اس صوبے میں مقامی اہل کاروں کے ساتھ مسجد میں نمازِ جمعہ بھی ادا کی تھی۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں چین پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ اس خطے میں ایغور مسلمانوں کی بڑی پیمانے پر نگرانی، ان کی مذہبی شناخت کو دبانے اور کیمپوں میں لگ بھگ 10 لاکھ افراد کو نظر بند کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
البتہ چین اسے مغربی پراپیگنڈہ قرار دیتا ہے اور ان کیمپوں کو 'ری ایجوکیشن سینٹرز' کہتا ہے۔ بیجنگ کا دعویٰ ہے ان کیمپوں کا مقصد عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے ایغوروں کو چین کے اکثریتی ہان ثقافت کے ساتھ جوڑنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
کاکڑ نے کہا کہ " میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اس خطے میں مقیم لوگ چینی قیادت کے زیرِ سایہ شاندار زندگی گزار رہے ہیں۔"
اسرائیل حماس جنگ پر گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ غزہ میں حماس کے مبینہ ٹھکانوں پر اسرائیلی حملوں میں ہزاروں بچوں کی ہلاکت کے باعث امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اخلاقی اختیار کھو دیا ہے۔
شفاف انتخابات
انوار الحق کاکڑ سے جب پوچھا گیا کہ وہ شفاف انتخابات کیسے یقینی بنا سکتے ہیں؟ تو نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ یہاں جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں خود سے تمام پلیئرز کے ساتھ انتہائی شفافیت، انتہائی منصفانہ عمل کا عہد کرنا چاہیے اور اگر اس کے بعد بھی ہم پر تنقید ہوتی ہے تو ہم اس کے ساتھ ٹھیک ہیں۔
بطورِ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں آٹھ فروری کو صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں اور یہ ان کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔
مختلف سروے کے مطابق عمران خان ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں جو اس وقت کرپشن الزامات پر جیل میں ہیں اور انہیں مقدمات کی ایک فہرست کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں۔ البتہ امکان ہے کہ انتخابات میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان حصہ نہیں لے سکیں گے۔
نو مئی واقعات پر گرفتار 100 سے زیادہ عمران خان کے حامی فوج کی حراست میں ہیں۔ سپریم کورٹ ان افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کا حکم دے چکی ہے۔ البتہ انوار الحق کاکڑ اس فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ "یقیناً ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلنا چاہیے۔ ان کا جمہوریت کے لفظ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
انہوں نے سوال اٹھایا کہ لوگ فوجی تنصیب کی طرف کیوں جاتے ہیں؟ اگر وہ ایسا کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو اس ملک میں قوانین موجود ہیں اور انہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری پر نو مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد تحریک انصاف میں اختلافات دیکھے گئے اور کئی رہنماؤں نے پارٹی سے راہیں جدا کرلیں۔ جو لوگ اس وقت پارٹی میں ہیں اور جیل میں نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہیں۔
فورم