پاکستان میں قیدیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم غیر سرکار ی تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی مختلف جیلوں میں 14 ہزار سے زائد پاکستانی مختلف جرائم اور الزامات کے تحت قید ہیں اور ان کی نصف تعداد صرف مشرق وسطیٰ کے دو ممالک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے یہ اعداد و شمار ایک ایسے موقع پر جاری کیے ہیں کہ جب دنیا بھر میں 18 دسمبر کو انٹرنیشنل ڈے آف مائیگریشن منا یا جا رہا ہے۔
یہ اعداد و شمار تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کیے ہیں جن میں دنیا کی مختلف ممالک کی جیلوں میں قیدیوں کے بارے میں اعداد و شمار کے علاوہ ان کو درپیش مسائل کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ پاکستانی حکام اور متعلقہ ادارے پاکستانی تارکینِ وطن کے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا کی مختلف جیلوں میں 14,286 پاکستانی قید ہیں جن میں سے 58 فی صد صرف یو اے ای اور سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
یو اے ای میں پانچ ہزار 292 جب کہ سعودی عرب میں تین ہزار ایک سو پاکستانی قید ہیں اور 2010 سے 2023 کے دوران بیرون ملک 183 پاکستانی قیدیوں کو پھانسی دی گئی اور ان میں صرف 171 وہ پاکستانی ہیں جنہیں سعودی عرب میں سزائے موت دی گئی۔
جسٹس پروجیکٹ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یو اے ای میں قید پاکستانی شہری مختلف جرائم اور الزامات کے تحت قید ہیں۔ ان میں 235 منشیات کی اسمگلنگ کے الزمات میں جب کہ 48 چوری اور 46 غیر اخلاقی سرگرمیوں کی الزامات میں قید ہیں۔
تنظیم کے مطابق ستمبر 2022 میں یو اے ای میں قید پاکستانیوں کی تعداد 1600 تھی جو دسمبر 2023 میں بڑھ کو پانچ ہزار 292 ہو گئی۔
سعودی عرب کی جیلوں میں 3100 پاکستانی شہری قید ہیں۔ ان میں سے 691 منیشات کی اسمگلنگ، 180 چوری اور ڈکیتی جب کہ دیگر کئی چھوٹے جرائم کی وجہ سے قید ہیں جب کہ گزشتہ سال سے اب تک سات پاکستانی شہریوں کو پھانسی دی گئی ہے۔
جسٹس پروجیکٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت پانے والی پاکستانی شہری خود اسمگلنک نیٹ ورک کا شکار ہو جاتے ہیں جب مبینہ طور پر انھیں منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کی طرف سے منشیات کی اسمگللنگ کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب 811 پاکستانی غیر قانونی طور پر بغیر کسی دستاویز کے ذریعے یونان داخل ہونے کے الزام میں قید ہیں۔
خیال رہے کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی شہری مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں روزگار کے لیے مقیم ہیں اور ہر سال ایک کثیر زرِمبادلہ پاکستانی بھیجتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں لگ بھگ 90 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور ان کی زیادہ تعداد مشرقِ وسطیٰ کے ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت میں مقیم ہیں او ر بیرون ملک کام کرنے یہ پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کا زرِمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جو پاکستان معیشت کے لیے نہایت ہی اہم ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال 2023-2022 میں بیرون ملک سے پاکستانی شہریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیل زر کا حجم 27 ارب ڈالر تھا۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق 26 لاکھ 40 ہزار پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں جو ہر سال 538 ملین ڈالر پاکستان میں زرِمبادلہ بھیجتے ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات میں 12 لاکھ 90 ہزار پاکستانی مقیم اور ان میں کئی ایک مقامی قوانین کے بارے میں مناسب آگاہی نا ہونے کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے سرگرم کارکن اور وکیل ضیا اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب اماارت میں قید پاکستانی شہریوں میں زیادہ تر وہ ہیں جو غیر قانونی دستاویز یا ویزے کے مسائل کی وجہ سے وہاں قید ہیں اور ایسے پاکستانی شہریوں کو ملک واپس لانے کے لیے پاکستان حکومت اور ان ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں کو مقامی حکام سے بات چیت کر ان کی رہائی کو یقینی بنانا چاہیے۔
ضیا اعوان کہتے ہیں کہ دوسری جانب پاکستان سے ہر سال قانونی طور پر جانے والے پاکستان شہریوں کے ساتھ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو غیر قانونی انسانی اسمگلنگ کی وجہ سے بیرون ملک مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس طرف بھی توجہ دینی کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک میں کافی سخت سزائیں ہیں اور پاکستان حکام کو ایسے افراد جو اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا ضروری ہے تاکہ ایسے لوگ یہاں سے بیرون ملک نا جا سکیں۔
پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے گزشتہ ہفتے دفترِ خارجہ کی معمول کی پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں قید پاکستانیوں میں سے 554 شارجہ کی سینٹرل جیل میں قید ہیں اور متحدہ عرب امارت میں پاکستانی مشن جیل حکام سے مستقل رابطے میں ہے۔
پاکستانی سفارت کار جیلوں کے معمول کے دورے بھی کرتے ہیں تاکہ جیل میں قید پاکستانی قیدیوں کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا جو لوگ اپنی سزا پوری کر لیتے ہیں انہیں طریقۂ کار کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد فوری طور پر پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔
فورم