پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد حکومت پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف موجودہ حکومت کی جاری کوششوں سے ماضی کی نسبت حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن ان کے بقول یہ جنگ ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی ہے۔
رواں ماہ سندھ کے شہر سیہون میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان پیلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے قومی لائحہ عمل پر پوری طرح عمل درآمد نا کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف وضع کیے گئے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
"بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ہے۔۔۔۔یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔۔کچھ وفاقی حکومت کی، کچھ فوج کی، آدھی سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی۔ ان میں سے صوبائی حکومتوں کی ذمہ دس نکات ہیں اور باقی دس میں سے چار وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے عملی اقدمات کیے ہیں۔
"میں نہیں کہتا کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے اس سے دہشت گردی پر مکمل کنٹرول ہو گیا ہے مگر میں آپ کے سامنے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ ان ساڑھے تین سالوں میں پہلی دفعہ عملی طور پر اقدامات اٹھائے گئے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے بلکہ ایک کثیرالجہت چیلنج ہے جس سے نمٹنا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔
سکیورٹی امور کے تجزیہ کار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف وضع کردہ قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی طریقہ کار وضع کرنا ہو گا۔
"بنیادی چیز یہ ہے کہ وزیر اعظم خود اس کی نگرانی کریں اور پیش رفت کو دیکھیں اور جہاں وسائل یا سیاسی عزم کی کمی ہو اس کو دور کریں اس پر بات چیت کریں اور اس کو حل کریں۔"
نثار علی خان نے کہا کہ 2006ء کے بعد گزشتہ سال پہلی بار دہشت گردی کے صرف سات سو واقعات ہوئے اور ان میں سے بھی صرف ساڑھے چار سو ایسے تھے جن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور صرف دو سو ساٹھ واقعات تھے جو مہلک ثابت ہوئے۔