صوبہ خیبر پختون خواہ کے قصبے مینگورا میں سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنا کر کیے گئے حملے میں دو افسروں کو ہلاک اور قریبی بنک کے ایک گارڈ کو ہلاک کر دیا گیا ہے ۔
ایک سینئیر پولیس افسر شفیع اللہ خان نے بتایا ہے کہ حملہ ڈسٹرکٹ سوات کے قصبے مینگورا میں ہوا ۔
پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور جائے واقعہ سے فرار ہونے والے تین حملہ آوروں کو تلاش کر رہی ہے ۔
تحریک طالبان پاکستان نے میڈیا کو جاری کئے گئے ایک بیان میں حملے کی زمہ داری قبول کی ہے۔
جمعرات کے اس حملےسے قبل اتوار کو شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان مسلح جھڑپ ہوئی تھی۔
یہ علاقہ پاکستانی طالبان کا گڑھ رہا ہے ۔اگرچہ پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ اس نے علاقے سے عسکریت پسندوں کا صفایا کر دیا ہے تا ہم گاہے گاہے حملے اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ پاکستانی طالبان علاقے میں نئے سرے سے منظم ہو رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی یا تحریک طالبان اگرچہ ایک الگ گروپ ہے لیکن وہ افغان طالبان سے قریب ہے جنہوں نے دو عشروں کی جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اگست 2021 کے وسط میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے پاکستان افغان سرحد پر مقیم عسکریت پسندوں کو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بسانے کی پیش کش کی ہے تاکہ ان کی سرحد پار رسائی آسان نہ رہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے حکومتِ پاکستان کو یہ پیشکش دو ماہ قبل کی تھی۔ دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ ماہ دورۂ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کو باہمی طور پر اپنے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اپریل میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔
افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کررکھا ہے۔
اس خبر کا بیشتر مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔