پاکستان کے بڑے نجی ٹیلی ویژن نیٹ ورک، ’جیو‘ کے اہل کاروں نے جمعے کے روز کہا ہے کہ کیبل آپریٹرز نے ملک کے تقریباً 80 فی صد علاقے میں چینل کی نشریات کو مؤثر طور بلاک کر دیا ہے۔
’جیو‘ کے ڈائریکٹر نیوز، جواد رانا کے مطابق، ’’گذشتہ چند برس سے ملک بھر کے چھاؤنی کے علاقوں اور ملحقہ کالونیوں میں چینل کو من مانی نوعیت کی بندشوں کا سامنا رہا ہے‘‘۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا، ’’لیکن، حالیہ ہفتوں کے دوران، مفلوج کردینے والی بندش اور خلل ڈالنے والے حربے بدتر صورت اختیار کرگئے ہیں اور یہ کہ ملک کے تقریباً 80 فی صد علاقے میں نیٹ ورک کی براہ راست نشریات روکی گئی ہیں۔‘‘
جواد نے مزید کہا کہ ’’کراچی اور لاہور جیسے اہم شہروں میں چینل کی نشریات 90 فی صد علاقوں میں دستیاب نہیں ہیں‘‘۔
جواد رانا نے زور دے کر کہا کہ ’’اب یہ حکومت اور اُس کے میڈیا کے انضباطی ادارے پر منحصر ہے کہ وہ فوری طور پر اس بات کا تعین کریں کہ نشریات کون روک رہا ہے‘‘۔
سماجی رابطے کے میڈیا پر جاری مباحثے میں اِس عام تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ، بقول اُن کے، ’’طاقت ور فوج ہی کیبل آپریٹروں پر دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ وہ جیو کی نشریات بند رکھیں۔ شائع ہونے والی کچھ پوسٹوں میں سکیورٹی پالیسیوں اور شہری معاملات میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر کی جانے والی تنقید کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ شاید اُسی ممکنہ سبب کی بنا پر نشریات میں خلل ڈالا جا رہا ہے‘‘۔
جواد نے کھل کر یہ نہیں بتایا کہ نیٹ ورک کو کون نشانہ بنا رہا ہے اور یہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں فوج کی جانب سے کوئی عام بیان سامنے نہیں آیا وہ ہی یہ بندش ڈال رہی ہے۔
سرکاری اہل کار اور پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کے انضباطی ادارے ’پیمرا‘ مصر ہیں کہ اس معاملے سے اُن کا کوئی سرو کار نہیں۔
برعکس اس کے، اس ہفتے پیمرا نے کیبل آپریٹروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ جیو کی نشریات بحال رکھیں یا پھر اُن کا لائسنز معطل کیا جائے گا۔
نیو یارک میں قائم ’کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے) نے مطالبہ کیا ہے کہ جیو کی نشریات کو مکمل طور پر بحال کیا جائے۔
’سی پی جے‘ کے پروگرام رابطہ کار برائے ایشیا، اسٹیون بٹلر نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ’’کیبل ٹیلی ویژن پر جیو کی نشریات کی امتیازی معطلی اطلاعات تک رسائی کے حق سے متعلق پاکستانی آئینی ضمانت پر براہِ راست حملہ ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ امر ناقابل قبول ہے کہ حکام یہ معلوم نہیں کرسکے یا اُنھیں نام لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے، جو اتنے طاقتور ہیں کہ وہ خبروں کی دستیابی بند کردیں‘‘۔
جواد نے متنبہ کیا کہ جیو کے 4000 ملازمین ’’معاشی اور نفسیاتی‘‘ دباؤ کا شکار ہیں، کیونکہ اُنھیں خدشہ ہے کہ ادارے کے مالکان کو پہنچنے والے مالی نقصان کے نتیجے میں اُن کا روزگار داؤ پر ہے۔