واشنگٹن —
پاکستان کی تقریبا نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستانی خواتین کا ووٹ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان میں خواتین کی زیادہ تعداد ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلی۔ خاص طور پر پاکستان کے جنوبی مغربی صوبے بلوچستان میں عام انتخابات کے دوران خواتین ووٹروں کا تناسب ہمیشہ کم رہا ہے۔
لیکن اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی خواتین عام انتخابات کے حوالے سے پرجوش ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنے کا انتظار ہے۔
رقیہ ہاشمی کا تعلق ہزارہ شیعہ برادری سے ہے اور وہ بلوچستان میں انتخاب لڑ رہی ہیں۔ رقیہ کہتی ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں انتخابی مہم چلانا اتنا آسان نہیں اور خاص کر خواتین کے لیے تو یہ مزید مشکل کام ہے۔ ان کے الفاظ، ’مجھے پچھلے کئی دنوں سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میں یہاں بہت ڈری ہوئی آتی ہوں۔ میں نے اپنا حلیہ بدل لیا ہے، اپنا ڈرائیور بدلا ہے اور اپنی گاڑی بھی بدل لی ہے۔‘
انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں اور بلوچستان میں قائم خوف و ہراس کی فضاء حمیرا یاسمین جیسی خواتین کو بھی شش و پنچ میں ڈالے ہوئے ہے۔ حمیرا اپنا ووٹ ڈالنا چاہتی ہیں لیکن وہ الیکشن کے روز پولنگ سٹیشن پر جا کر ووٹ ڈالنے سے خوفزدہ ہیں۔
حمیرا کہتی ہیں، ’یہاں کی صورتحال میں خواتین کا باہر نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے خواتین کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ باہر نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ اگر ہم گھر سے باہر نکلیں اور باہر سیکورٹی نہ ہوئی تو ہم کیا کریں گے؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ہم اپنی زندگی داؤ پر لگا دیں۔ اور زندگی سے اہم کوئی چیز نہیں۔‘
فرح ناز ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خواتین میں تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ووٹ ڈالنا ایک مسئلہ ہے۔ فرح کہتی ہیں، ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے۔ اس کام کے لیے بھی وہ اپنے گھر کے مردوں پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ وہ صرف اپنے گھر کے مردوں کا حکم مانتی ہیں اور ان کے مطابق چلتی ہیں۔ خواتین کو اپنی سوچ کے مطابق اپنا ووٹ استعمال کرنا چاہیئے۔‘
بلوچستان میں پرتشدد سرگرمیوں کی وجہ سے الیکشن مہم روایتی انداز میں نہیں چلائی جا سکی اور امیدواران نے لوگوں تک پہنچنے کے لیے ریلیاں منعقد کرنے کی بجائے ٹی وی اور ریڈیو پر اشتہاروں کا سہارا لیا۔
کنزیٰ شکیل یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ اپنے صوبے میں بے روزگاری اور سیکورٹی کے مسائل سے تنگ آ چکی ہیں اور اس امید پر ووٹ ڈالیں گی کہ آنے والی قیادت کوئٹہ کی آواز سنے گی۔
کنزیٰ کے الفاظ، ’میں نہیں چاہتی کہ وہ پرانے سیاستدان جو برس ہا برس اس ملک پر حکومت کرتے رہے ہیں، دوبارہ اس ملک کی قیادت سنبھالیں۔ مجھے تبدیلی چاہیئے۔ میں چاہتی ہوں کہ نئے لوگ سامنے آئیں نہ کے وہ لوگ جو صرف اشتہاروں میں پیسہ لگا کر عوام کی خدمت کے دعوے کر رہے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ الیکشن کے روز زیادہ ٹرن آؤٹ کی امید نہیں ہے لیکن ایسے میں وہ افراد اور خاص طور پر خواتین جو اپنے گھروں سے باہر نکلیں گی اور ووٹ ڈالیں گی، وہی اس ملک کی نئی حکومت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
لیکن اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی خواتین عام انتخابات کے حوالے سے پرجوش ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنے کا انتظار ہے۔
رقیہ ہاشمی کا تعلق ہزارہ شیعہ برادری سے ہے اور وہ بلوچستان میں انتخاب لڑ رہی ہیں۔ رقیہ کہتی ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں انتخابی مہم چلانا اتنا آسان نہیں اور خاص کر خواتین کے لیے تو یہ مزید مشکل کام ہے۔ ان کے الفاظ، ’مجھے پچھلے کئی دنوں سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میں یہاں بہت ڈری ہوئی آتی ہوں۔ میں نے اپنا حلیہ بدل لیا ہے، اپنا ڈرائیور بدلا ہے اور اپنی گاڑی بھی بدل لی ہے۔‘
انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں اور بلوچستان میں قائم خوف و ہراس کی فضاء حمیرا یاسمین جیسی خواتین کو بھی شش و پنچ میں ڈالے ہوئے ہے۔ حمیرا اپنا ووٹ ڈالنا چاہتی ہیں لیکن وہ الیکشن کے روز پولنگ سٹیشن پر جا کر ووٹ ڈالنے سے خوفزدہ ہیں۔
حمیرا کہتی ہیں، ’یہاں کی صورتحال میں خواتین کا باہر نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے خواتین کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ باہر نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ اگر ہم گھر سے باہر نکلیں اور باہر سیکورٹی نہ ہوئی تو ہم کیا کریں گے؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ہم اپنی زندگی داؤ پر لگا دیں۔ اور زندگی سے اہم کوئی چیز نہیں۔‘
فرح ناز ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خواتین میں تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ووٹ ڈالنا ایک مسئلہ ہے۔ فرح کہتی ہیں، ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے۔ اس کام کے لیے بھی وہ اپنے گھر کے مردوں پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ وہ صرف اپنے گھر کے مردوں کا حکم مانتی ہیں اور ان کے مطابق چلتی ہیں۔ خواتین کو اپنی سوچ کے مطابق اپنا ووٹ استعمال کرنا چاہیئے۔‘
بلوچستان میں پرتشدد سرگرمیوں کی وجہ سے الیکشن مہم روایتی انداز میں نہیں چلائی جا سکی اور امیدواران نے لوگوں تک پہنچنے کے لیے ریلیاں منعقد کرنے کی بجائے ٹی وی اور ریڈیو پر اشتہاروں کا سہارا لیا۔
کنزیٰ شکیل یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ اپنے صوبے میں بے روزگاری اور سیکورٹی کے مسائل سے تنگ آ چکی ہیں اور اس امید پر ووٹ ڈالیں گی کہ آنے والی قیادت کوئٹہ کی آواز سنے گی۔
کنزیٰ کے الفاظ، ’میں نہیں چاہتی کہ وہ پرانے سیاستدان جو برس ہا برس اس ملک پر حکومت کرتے رہے ہیں، دوبارہ اس ملک کی قیادت سنبھالیں۔ مجھے تبدیلی چاہیئے۔ میں چاہتی ہوں کہ نئے لوگ سامنے آئیں نہ کے وہ لوگ جو صرف اشتہاروں میں پیسہ لگا کر عوام کی خدمت کے دعوے کر رہے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ الیکشن کے روز زیادہ ٹرن آؤٹ کی امید نہیں ہے لیکن ایسے میں وہ افراد اور خاص طور پر خواتین جو اپنے گھروں سے باہر نکلیں گی اور ووٹ ڈالیں گی، وہی اس ملک کی نئی حکومت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔