‘ہماری کوئی مدد نہیں کررہا۔ ہم یہاں پر بے حال بیٹھے ہیں۔ پاکستان واپس آنا ہے، لیکن کسی جگہ ہماری شنوائی نہیں ہورہی۔’
یہ کہنا ہے ترکی میں موجود عمر مبین کا جو دیگر ہزاروں پاکستانیوں کی طرح بیرونِ ملک پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان واپسی کے لیے حکومت کی طرف نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
عمر مبین متحدہ عرب امارات سے ترکی پہنچے تھے اور اُنہیں پاکستان واپس آنا تھا۔ لیکن تمام بین الاقوامی پروازیں بند ہونے کے باعث وہ پاکستان نہیں پہنچ سکے۔
ترکی سے اب تک ایک خصوصی پرواز پاکستان آئی ہے جس میں 194 مسافر واپس لائے گئے تھے۔ لیکن اب بھی ہزاروں پاکستانی ترکی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
عمر مبین نے وائس آف امریکہ کو پاکستانی قونصلیٹ اور پاکستان میں موجود حکام کے ساتھ ہونے والی ‘واٹس ایپ چیٹ’ کے اسکرین شاٹس بھی بھیجے ہیں۔ جن میں صبر کی تلقین کی گئی ہے اور مستقبل میں خصوصی فلائٹ کے ذریعے وطن واپس لانے کا کہا گیا ہے۔
عمر کا کہنا ہے کہ اتنے مشکل حالات میں پاکستان سے پیسے منگوا کر 800 ڈالر کا ٹکٹ خریدا۔ لیکن واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں بن رہا۔
پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیلنے کے پیشِ نظر گزشتہ ماہ 21 مارچ کو پاکستانی حکومت نے تمام بین الاقوامی فلائٹس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد چار اپریل سے پاکستان نے محدود فلائٹ آپریشن شروع کیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر ملک مسافروں کو پاکستان لانے کے لیے پروازیں آنے کی بھی اجازت نہیں دے رہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے خصوصی پروازوں کی اجازت دی تھی۔ تاہم نئے شیڈول میں ان دونوں اسٹیشنز کے لیے فلائٹس بھی نہیں ہیں۔
پی آئی اے کیا کر رہا ہے؟
پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ترجمان عبداللہ خان نے موجودہ صورتِ حال پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسافروں کی مشکلات کے پیشِ نظر حکومت نے 17 فلائٹس آپریٹ کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب کہ 11 اپریل کے بعد مزید فلائٹس کی اجازت ملنے کا امکان ہے۔ لیکن یہ کتنی تعداد ہوگی اس بارے میں حکومت بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک جو فلائٹس آپریٹ کی گئی ہیں۔ ان کے ذریعے ترکی، تاشقند، بغداد، کینیڈا اور برطانیہ سے تقریباً دو ہزار لوگوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔
امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو واپس لانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فی الحال امریکہ کے لیے براہِ راست پرواز آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے لاہور سے نیویارک براستہ مانچسٹر فلائٹ چلائی جا رہی تھی۔ لیکن موجودہ حالات میں اس فلائٹ کی اجازت نہیں ہے۔ اگر امریکہ سے خصوصی اجازت ملے تو فلائٹ بھجوائی جاسکتی ہے۔
عبداللہ خان نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث اگرچہ پی آئی اے کا عملہ بھی پریشانی کا شکار ہے۔ لیکن اس کے باوجود فضائی عملہ فلائٹس آپریٹ کرنے کے لیے تیار ہے۔
ان کے بقول، عملے کو تمام تر حفاظتی سامان فراہم کر دیا گیا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کب فلائٹس بھجواتی ہے۔
فلائٹ آپریشن کی معطلی میں مزید توسیع
سول ایوی ایشن اتھارٹی نے دیگر ممالک کے لیے فلائٹس آپریشن اور ڈومیسٹک فلائٹ آپریشن رواں ماہ 21 اپریل تک منسوخ کر دیا ہے۔ اس سے قبل فلائٹ آپریشن پر پابندی 10 اپریل تک تھی جس میں مزید 11 دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔
فلائٹ آپریشن کی معطلی میں توسیع کے بعد بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ انہیں وطن واپس آنے کے لیے مزید چند روز انتظار کرنا ہو گا۔
اس حوالے سے پاکستان کے وزارتِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ حکومت باقاعدہ منصوبے کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو مرحلہ وار وطن واپس لا رہی ہے۔
عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ اب تک متحدہ عرب امارات سے 101، دوحہ سے 40، بینکاک سے 170، استنبول سے 194، تاشقند سے 128، تاجکستان سے تین اور بغداد سے 136 افراد کو وطن واپس لایا گیا ہے۔
اُن کے بقول، بیرون ممالک سے پاکستانی شہریوں کو واپس لانے کے لیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔
متحدہ عرب امارات میں پھنسے پاکستانیوں کی حالتِ زار
اطلاعات کے مطابق اس وقت متحدہ عرب امارات میں موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے 10 ہزار پاکستانی ملازمتوں سے فارغ کر دیے گئے ہیں اور اب انہیں ملک واپس بھجوایا جانا ہے۔ لیکن فلائٹس بند ہونے کی وجہ سے یہ افراد بھی وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
دبئی اور ابوظہبی پاکستان کے وہ اسٹیشن ہیں۔ جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر فلائٹس آتی اور جاتی ہیں۔
عام حالات میں امارات ایئر لائن کی صرف کراچی سے روزانہ چھ پروازیں آپریٹ ہوتی تھیں۔ جب کہ کل 11 فلائٹس پاکستان کے لیے مخصوص تھیں۔ لیکن اب یہ سب پروازیں بند ہو چکی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق صرف متحدہ عرب امارات میں پھنسے پاکستانیوں کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے۔ جنہیں وطن واپس لانے کے لیے بڑی تعداد میں فلائٹس کی ضرورت ہے۔ لیکن فی الحال امارات حکام نے پی آئی اے یا کسی اور ایئرلائن کو فلائٹس آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
امریکہ اور یورپ میں پھنسے پاکستانیوں کا حال
اس وقت بیرونِ ملک سے پاکستان آنے والی پروازوں سے بعض متاثرین کی مشکلات تو دور ہوئی ہیں لیکن اب بھی کئی ممالک میں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔ بالخصوص وہ ممالک جہاں پی آئی اے کی پروازیں براہِ راست آپریٹ نہیں ہو رہیں۔ وہاں پر مقیم پاکستانی شہری اس وقت زیادہ مشکل صورتِ حال سے دو چار ہیں۔
امریکہ کے شہر نیویارک میں مقیم فراز سید کا کہنا ہے کہ جب سے پروازوں پر پابندی لگی ہے۔ اس کے تین دن بعد ان کی پاکستان واپسی کی فلائٹ تھی۔
اُن کے بقول وہ مسلسل پاکستانی قونصلیٹ سے رابطہ کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ سے پاکستانیوں کو کیسے نکالنا ہے، اس بارے میں کوئی آگاہ نہیں کر رہا۔
قونصلیٹ حکام کے مطابق پاکستان نے امریکہ سے خصوصی پرواز کی اجازت مانگی ہے۔ لیکن اس وقت وہاں پھنسے پاکستانیوں کی تعداد صرف نیویارک شہر میں ہی 500 سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے دیگر شہروں میں اس سے کئی گنا زیادہ پاکستانی وطن واپسی کے انتظار میں ہیں۔
فراز کا کہنا ہے کہ قطر، امارات یا کسی اور ایئر لائن سے رابطہ کیا جائے تو ان کا کہنا ہے کہ امارات یا قطر تک تو پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن آگے پاکستان تک جانے کا کوئی آپشن دستیاب نہیں ہے۔ لہذا ان کو امریکہ سے لا کر ان ممالک میں نہیں بٹھایا جاسکتا۔
یورپی ملک بیلجیئم میں وِزٹ ویزہ پر جانے والے حارث سلمان کہتے ہیں کہ دو ہفتوں کے لیے بیلجیئم آیا تھا اور اب واپسی کے لیے کوئی فلائٹ دستیاب نہیں ہے۔
اُن کے بقول، "جس ایئر لائن سے آیا تھا۔ انہوں نے مئی کی تاریخ دی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ہمارے پاس رہنے اور کھانے پینے کے وسائل ختم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں اگلے دن کیسے گزریں گے، سمجھ نہیں آر ہا۔"
پاکستان سے باہر اس وقت پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اُنہیں واپس لانے کے لیے اب تک 17 فلائٹس چلائی گئی ہیں۔
پاکستان سول ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ ان فلائٹس کو مرحلہ وار کھولنا چاہتے ہیں۔ لیکن کرونا وائرس کی صورتِ حال پر حتمی فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ جس کے بعد فلائٹس کی اجازت دی جائے گی۔