رسائی کے لنکس

پاکستان کی نئی سیکیورٹی پالیسی: 'بھارت کے ساتھ اگلے 100 برس تک مخاصمت نہیں چاہتے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان نے نو تشکیل شدہ قومی سلامتی پالیسی کا کچھ حصہ عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں جمعے کو وزیرِ اعظم عمران خان پالیسی کے بنیادی خدوخال عوام کے سامنے لائیں گے۔

پاکستان کی نئی قومی سلامتی پالیسی میں قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے اور اقتصادی رابطہ کاری پر زور دیا گیا ہے۔

پاکستان کے سرکاری اور دیگر ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان باضابطہ طور پر پاکستان کی نئی قومی پالیسی کا اعلان کریں گے۔

پاکستان کے انگریزی اخبار 'ایکسپریس ٹریبون' کی رپورٹ میں ایک سرکاری عہدیدار کے حوالے سے سلامتی پالیسی کے کچھ نکات سامنے لائے گئے ہیں۔

اعلٰی سرکاری عہدے دار کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اگلے 100 برس تک مخاصمت نہیں چاہتا۔

نئی پالیسی میں فوری طور پر پڑوسیوں کے ساتھ امن کی کوشش کی جائے گی، اگر بھارت کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت ہوتی ہے تو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کا امکان ہو گا جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔

'خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ جیسا ماحول نہ بن جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00

قومی سلامتی سے متعلق صحافیوں کو ایک غیر رسمی بریفنگ دینے والے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ نئی قومی سلامتی پالیسی کو اسٹریٹجک سے جیو اکنامکس میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا اس سے بھارت کے ساتھ منجمد تعلقات میں ممکنہ طور پر برف پگھلنے کی ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔

نئی پالیسی میں معاشی سلامتی مرکزی موضوع ہو گا، اسی طرح اقتصادی سفارت کاری اور قریبی پڑوسیوں کے ساتھ امن ملک کی خارجہ پالیسی کا محور ہو گا۔

عہدیدار کا رپورٹس کے مطابق مزید کہنا ہے کہ جیو اکنامکس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے جیو اسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل مفادات کو نظر انداز کریں۔ بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعہ کشمیر کو پاکستان کے لیے 'اہم قومی پالیسی' کے مسئلے کے طور پر شامل رکھا گیا ہے۔

البتہ رپورٹ کے مطابق عہدیدار نے واضح کیا کہ نئی دہلی میں وزیرِ اعظم مودی کی حکومت کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے امکانات نظر نہیں آتے۔

حکام کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کے صرف کچھ حصوں کو عام کیا جائے گا جب کہ باقی حصے مخفی رہیں گے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ پالیسی اقتصادی، ملٹری اور ہیومن یعنی انسانی سیکیورٹی کے تین بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔

اقتصادی سیکیورٹی کو قومی سلامتی پالیسی میں مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ پاکستان میں قومی سلامتی سے متعلق پہلی بار جامع پالیسی تیار کی گئی ہے۔

اس سلامتی پالیسی پر سالانہ بنیادوں پر نظرِ ثانی کی جائے گی اور آئندہ آنے والی نئی حکومت کو پالیسی میں ردوبدل کا اختیار حاصل ہو گا۔

نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اس سلامتی پالیسی پر عمل درآمد کروائے گی اور ہر ماہ حکومت نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو عملدرآمد رپورٹ پیش کرے گی۔

حکام کا کہنا تھا کہ کشمیر کو پاکستان کی سلامتی پالیسی میں اہم قرار دیا گیا ہے۔ مسئلۂ کشمیر کا حل پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

نئی پالیسی میں بڑھتی ہوئی آبادی کو انسانی سیکیورٹی کا بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے، شہروں کی جانب ہجرت، صحت، پانی اور ماحولیات، فوڈ اور صنفی امتیاز ہیومن سیکیورٹی کے اہم عنصر ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان جمعے کو نئی قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال سامنے لائیں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان جمعے کو نئی قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال سامنے لائیں گے۔

ایران کے ساتھ تعلقات پابندیاں ہٹنے سے مشروط

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ معاملات عالمی پابندیاں ختم ہونے کے بعد آگے بڑھانے کا اختیار حکومتِ وقت کو تجویز کیا گیا ہے۔

موثر حکومتی عملداری، سیاسی استحکام، فیڈریشن کی مضبوطی پالیسی کا حصہ قرار دیے گئے ہیں۔

بھارت کے ساتھ تجارت زیادہ اہم ہے: ڈاکٹر ظفر جسپال

اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈاکٹر ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کافی چیلنجنگ ہے۔

اُن کے بقول ہم ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں جیو اسٹرٹیجک چیلنجز بہت اہم ہیں۔ لیکن ان سب سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اپنی اقتصادی حالت درست کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ معاشی بہتری کو پالیسی کا محور بنانا درست ہے، لیکن پاکستان جس خطے میں ہے اس میں باقی معاملات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر ظفر جسپال کہتے ہیں کہ ہماری قومی سلامتی کے ساتھ عمومی طور پر صرف ملٹری کو دیکھا جاتا ہے، لیکن اب اس بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی بہتری کی ضرورت ہے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اور بھارت کے لیے پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ مگر دونوں ملکوں میں تجارت کے بغیر پاکستان کی اقتصادی بہتری کی خواہش پوری نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان وسطی ایشیا کے لیے بھارت کا لنک بن سکتا ہے اور افغانستان کے لیے ایک لنک بن سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG