رسائی کے لنکس

اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے امن مذاکرات، کامیابی کے امکانات پر بحث


دو سال کے تعطل کے بعد امریکہ کے زیراہتمام اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان امن مذاکرات ایک بار پھر شروع ہو گئے ہیں۔ جمعرات کے روز امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ امریکی انتظامیہ ایک سال کے اندر کوئی سمجھوتہ چاہتی ہے۔ تا ہم مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے تجزیہ کار کامیابی کے امکانات کے بارے میں پُرامید نہیں۔

جمعرات کو واشنگٹن میں براہِ راست مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور فلسطینی لیڈر محمود عباس نے اس مہینے کے آخر میں بات چیت کا ایک اوردور منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔ لمبی مدت کے لیے ان کا مقصد یہ ہے کہ مستقل امن کے سمجھوتے کا کوئی ڈھانچہ ترتیب دیا جائے۔

اس نئے امریکی اقدام کے نتیجے میں امن کے امکانات کے بارے میں واشنگٹن کی امریکن پولیٹیکل سائنس ایسوسی ایشن کی ایک میٹنگ میں زوردار بحث ہوئی۔

Anne Marie Slaughter امریکی محکمہ خارجہ میں پالیسی پلاننگ کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات کی معقول وجوہ موجود ہیں کہ اس مسئلے کے بارے میں صدر اوباما کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں جب کہ ماضی میں کئی بار پچھلی امریکی انتظامیہ ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے’’اس صدر نے اس بارے میں پہلے دن ہی سے یہ عہد کر لیا تھا۔ انھوں نے اپنی انتظامیہ کے آخری سال تک انتظار نہیں کیا۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کے لیے بہت صبر اور وقت درکار ہو گا اور ہوا بھی یہی ہے ۔ لیکن 18 مہینوں کے بعد یہ ایک اہم پیش رفت ہے، اگر آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس کے لیے ابتدائی تیاریاں کرنی ہیں، ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا، لیکن ہمیں یہ بات ماننی ہوگی کہ سمجھوتہ ممکن ہے‘‘۔

لیکن اس میٹنگ میں اچھی توقعات کا اظہار کرنے والے لوگ اقلیت میں تھے۔ John Mearsheimer یونیورسٹی آف شکاگو میں انٹرنیشنل سکیورٹی پالیسی پروگرام سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ امن کا عمل بنیادی طور سے محض دکھاوا ہے‘‘۔

Mearsheimer امریکہ میں اسرائیلی لابی کے جانے پہچانے ناقد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس لابی کی کوششوں کی وجہ سے صدر اوباما کے لیے یہ ناممکن ہو جائے گا کہ وہ مسٹر نیتن یاہو پر رعایتیں دینے کے لیے دباؤ ڈال سکیں’’ میرے خیال میں یہ سمجھنے کی معقول وجوہ موجود ہیں کہ صدر براک اوباما کی طرف سے ان مذاکرات کی کوشش ایک بڑی سیاسی غلطی ہے کیوں کہ یہ بہر حال ناکام ہو جائیں گے اور جب ایسا ہوگا تو ندامت اور مایوسی کے سوا کچھ اور ان کے ہاتھ نہیں آئے گا‘‘۔

Mearsheimer کہتے ہیں کہ مسٹر عباس بہت کمزور ہیں اور وہ حماس کو مذاکرات کی میز پر نہیں لا سکتے۔ غزہ کی پٹی پر حماس کا کنٹرول ہے ۔ اس ہفتے کے شروع میں مغربی کنارے کے حملوں کی ذمے داری جن میں یہودی آباد کار ہلاک ہوئے، حماس کے مسلح دھڑے نے قبول کر لی ہے۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے Ian Lustick کہتے ہیں کہ امن کے لیے ماضی میں جو کوششیں کی گئی تھیں، ان کے مقابلے میں آج کل امن سمجھوتے کے لیے حالات کم سازگار ہیں۔ تا ہم ، اس کوشش کے بارے میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ امید کی کوئی وجہ موجود ہے یا نہیں۔ مسٹر نیتن یاہو کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر پر انھوں نے جو عارضی پابندی لگائی ہے، اس میں توسیع کی جائے یا نہیں۔

Lustick نے یہودی بستیوں کی تحریک کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے مذاکرات کی ناکامی سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ امن کے لیے کیا کرنا ضروری ہے’’فریقین میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ امن کی قیمت کیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو قیمت کا علم نہ ہو۔ دونوں فریق تقریباً پوری طرح جانتے ہیں کہ دو ریاستوں کی بنیاد پر قابلِ عمل حل کے لیے کیا کرنا ضروری ہو گا‘‘۔

ماضی میں مصر اور اردن کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہو چکے ہیں۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان مذاکرات میں اسرائیل سے نسبتاً کم رعایتیں طلب کی گئی تھیں۔

یونیورسٹی آف نوٹرڈیم کے Michael Desch کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے مغربی کنارے کے کچھ حصے سے بھی دستبردار ہونا مشکل ہو گا جسے بہت سے اسرائیلی اس کے قدیمی نام Judea اور Samaria نام سے جانتے ہیں۔

یہاں بسنے والے آباد کاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ علاقے بائبل کے قدیم عہد کے اسرائیل کا دِل ہیں۔

لیکن اگر اسرائیل فلسطینی قیادت کے مطالبے قبول کر لیتا ہے اور یہودی بستیاں بسانا بند کر دیتا ہے تو بھی حماس کے پاس امن کےعمل کو مکمل طور سے تباہ کرنے کی طاقت موجود ہے ۔ اس کے مسلح دھڑے کا کہنا ہے کہ 13 عسکریت پسند گروپ، ممکنہ طور پر خود کش بمباری سمیت، اسرائیل کے خلاف مزید حملے کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG