دنیا میں زیادہ تر تجارت سمندری راستے سے ہوتی ہے اور اکثر تجارتی جہاز دنیا کے دو عظیم سمندروں بحر اوقیانوس اور بحرہ الکاہل کو ملانے والی پانامہ نہر سے ہوکرگزرتے ہیں جس سے ان کا سفر کئی ہزار میل کم ہو جاتا ہے۔ پانامہ نہر کی تعمیر کا آغاز 1882ء میں ہواتھا اور اس کی تکمیل 1914ء میں ہوئی ۔ اور اس نہر کو آج بھی انجنیئرنگ کا ایک عظیم شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ مگر گزشتہ سو برس کے دوران سمندری تجارت میں اس قدر اضافہ ہوچکاہے کہ اب اس نہر کو چوڑا کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
دیکھنے میں پانامہ کنال بہت بڑی ہے۔ مگر اب اسے تقریبا ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے مزید چوڑا کیا جا رہا ہے۔اس نہر میں فی الحال حال دو گزر گاہیں ہے۔جبکہ ان دنوں اس میں ایک تیسری گزرگاہ کی کھدائی پر کام ہورہا ہے جس کے بعد یہاں سے مزید بڑے بحری جہاز گزر سکیں گے۔
بحرا اوقیانوس کی جانب واقع جھیل گاٹون نہر کا وہ حصہ ہے جہاں سے گزرتے ہوے بحری جہاز، نہر کی دیواروں سے صرف چندسینٹی میٹر دور ہوتے ہیں۔
اس نہر سے گذرنے والے بحری جہازوں کی چوڑائی 32 میٹر اور ان کا زیر آب حصہ 12میٹر سے زیادہ نہیں ہوناچاہے۔ لیکن نئے راستے کی تکمیل کے بعد یہاں سے 49 میٹر چوڑے اور 15 میٹر گہرے جہاز بھی گذرسکیں گے۔
گاٹون جھیل آج سے سو سال پہلے نہر میں پانی پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی۔
گزشتہ تقریبا ایک صدی سے ایسے مال بردار بحری جہاز بنائے جاررہےتھے جو نہر پانامہ سے بھی گذر سکیں ۔لیکن اب پچھلے چند عشروں سے زیادہ چوڑے جہاز بھی تعمیر کیے جارہے ہیں جنہیں اپنے سفر کے لیے طویل سمندری راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت نہر سے سالانہ34 کروڑ ٹن سامان گزرتا ہے۔نہر کو وسیع کرنے کے بعد یہ وزن بڑھ کر سالانہ 60 کروڑ ٹن ہو جاے گا۔
نہر سے گذرنے والے جہاز اپنے وزن کے مطابق پیسے دیتے ہیں۔تعمیراتی کام سے منسلک ماہرین کے اندازے کے مطابق اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کا نصف حصہ تو معمول کے مطابق یہاں سے بحری جہازوں کی راہدی سے ہی پورا ہوجائے گا۔ جبکہ بقیہ حصہ وہ بڑے بحری جہاز پورا کر دیں گے جو اس کی توسیع کےبعدوہاں سے گزریں گے۔
اس منصوبے پر دنیا کے مختلف ممالک کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں تاہم 90 فیصد مزدورپا نا مہ کے لوگ ہیں۔نہر پانامہ پر ان دنوں ہر لمحہ کام جاری ہے تاکہ نئے راستے کا افتتاح نہر کی تعمیر کی سوویں سالگرہ کے موقع پر کیا جاسکے۔