واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ دفاع لیون پنیٹا رواں ہفتے چین کے دورے پر بیجنگ پہنچ رہے ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی بدگمانی کا ازالہ کرنا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی وزیرِ دفاع نے رواں برس جون میں امریکہ کے اتحادی ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا اور فوجی تعاون کے فروغ کی کوششوں پر گفت و شنید کی تھی۔
ان میں سے کئی ممالک کے ساتھ چین کے بحیرہ جنوبی چین کے علاقے میں سرحدی تنازعات چل رہے ہیں اور چین امریکہ کو خبردار کرچکا ہے کہ وہ اس معاملے میں دخل اندازی سے باز رہے۔
رواں ماہ امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی چین کا دورہ کیا تھا جس کے دوران میں انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن کا موقف اس معاملے میں واضح ہے اور وہ تنازع کے کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا بلکہ خطے میں امن اور استحکام دیکھنے کا خواہاں ہے۔
تاہم امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت کے معاملے پر چین اور اس کے پڑوسی ممالک میں جاری کشیدگی پر بارہا تشویش ظاہر کی ہے جب کہ واشنگٹن انتظامیہ چین کے صوبےہینان میں ایک فوجی اڈے کی تعمیر پر بھی تنقید کرچکی ہے جس کے خلاف پڑوسی ملک ویتنام میں مظاہرے ہوئے تھے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پنیٹا اپنے دورے کےد وران میں ایشیا پیسفک خطے میں امریکی عزائم سے متعلق چینی قیادت کے خدشات کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی وزیرِ دفاع نے رواں برس جون میں امریکہ کے اتحادی ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا اور فوجی تعاون کے فروغ کی کوششوں پر گفت و شنید کی تھی۔
ان میں سے کئی ممالک کے ساتھ چین کے بحیرہ جنوبی چین کے علاقے میں سرحدی تنازعات چل رہے ہیں اور چین امریکہ کو خبردار کرچکا ہے کہ وہ اس معاملے میں دخل اندازی سے باز رہے۔
رواں ماہ امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی چین کا دورہ کیا تھا جس کے دوران میں انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن کا موقف اس معاملے میں واضح ہے اور وہ تنازع کے کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا بلکہ خطے میں امن اور استحکام دیکھنے کا خواہاں ہے۔
تاہم امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت کے معاملے پر چین اور اس کے پڑوسی ممالک میں جاری کشیدگی پر بارہا تشویش ظاہر کی ہے جب کہ واشنگٹن انتظامیہ چین کے صوبےہینان میں ایک فوجی اڈے کی تعمیر پر بھی تنقید کرچکی ہے جس کے خلاف پڑوسی ملک ویتنام میں مظاہرے ہوئے تھے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پنیٹا اپنے دورے کےد وران میں ایشیا پیسفک خطے میں امریکی عزائم سے متعلق چینی قیادت کے خدشات کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے۔