پاکستان کے شہر پشاور میں آٹھ برس قبل آرمی پبلک اسکول پرحملے میں ہلاک ہونے والے درجنوں بچوں کے والدین اور عزیز و اقارب نے ذمے داروں کے تعین کے لیے اسلام آباد میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے باہر احتجاج کیا۔
واقعے میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کے والدین اور رشتے داروں کا مطالبہ ہے کہ اس وقت کے سول اور فوجی حکام کے خلاف مقدمہ درج کر کے واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔
سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 132 طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے واقعے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
اے پی ایس متاثرین نے ایسے وقت میں اسلام آباد کی جانب احتجاج شروع کیا ہے جب 28 نومبر کو ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ غیر معینہ جنگ بندی ختم کرتے ہوئے نئے حملوں کا اعلان کیا ہے۔
سانحے کے آٹھ برس مکمل ہونے پر متاثرین نے سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے سامنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔تاہم جمعرات کو اسلام آباد پہنچنے پر متاثرین ،وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ کی یقین دہانی کے بعد واپس پشاور آ گئے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ نے اُنہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ اُن کی وزیِرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرائی جائے گی جس کے بعد وہ واپس پشاور آ گئے ہیں۔
اس سے قبل مظاہرین جن میں اکثریت خواتین کی تھی گاڑیوں پر سوار ہو کر اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ متاثرین نے واقعے میں جان گنوانے والے بچوں کی تصاویر اور مطالبات پر مبنی بینرز اُٹھا رکھے تھے۔
متاثرین کو گلہ ہے کہ ایک برس قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کو بلا کر انہیں متاثرین کے مطالبات حل کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن اس کے باوجود اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
متاثرین کے مطالبات کیا ہیں؟
اے پی ایس سانحے میں جان کی بازی ہارنے والے طالبِ علم اسفند خان کی والدہ شاہانہ اجون کہتی ہیں کہ متاثرین نے سانحے کے وقت اہم سول اور فوجی عہدوں پر تعینات افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔
وائس آٖف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہانہ اجون کا کہنا تھا کہ جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کو متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر چار ہفتوں میں مطالبات پورے کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اُن کے بقول اس حوالے سے وفاقی وزرا اور اراکینِ پارلیمان بشمول عمر ایوب خان اور زرتاج گل پر مشتمل کمیٹی نے پشاور آ کر متاثرہ والدین سے ملاقاتیں بھی کی تھیں، لیکن تاحال مطالبات پورے نہیں ہوئے۔آٹھ برس گزر گئے ہیں مگر انصاف نہیں ملا۔
متاثرین میں شامل مسز تحسین نے بتایا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے سامنے پرامن احتجاج کا پروگرام بنایا ہے۔
وفاقی یا صوبائی حکومت نے اے پی ایس متاثرین کے اسلام آباد میں احتجاج پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
متاثرین کے وکیل فضل خان ایڈووکیٹ نےجو خود پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بعد بیرون ملک مقیم ہیں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس معاملے پر بننے والے عدالتی کمیشن نے اس واقعے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فضل خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی کمیشن نے اس وقت کے اہم سول اور فوجی حکام کو سیکیورٹی ناکامی کا ذمے دار قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے متاثرہ والدین کی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2018 میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم کی سربراہی میں بننے والے عدالتی کمیشن نے اپنی 500 صفحات پر مشتمل رپورٹ مکمل کر کے 2020 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حوالے کی تھی، جسے عدالت نے عام کرنے کا حکم دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دہشت گرد بغیر کسی مزاحمت کے اسکول کے عقب سے اندر داخل ہوئے، حالاں کہ اس دوران اگر سیکیورٹی گارڈز مزاحمت کرتے تو صورتِ حال مختلف ہو سکتی تھی۔
عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر اپنا ہی خون غداری کر جائے تو پھر ایسے حملوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے اور کوئی بھی سیکیورٹی ایجنسی ایسے حملوں کا سدِ باب نہیں کر سکتی جب دُشمن گھر کا بھیدی ہو۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے کئی افراد کو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کر کے فوجی عدالتوں میں پیش کیا تھا۔
اس واقعے پر پاکستان بھر میں سخت ردِعمل سامنے آیا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبے کے بعد ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کر دی گئی تھیں۔ پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا تھا جب کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت چاروں صوبوں میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایپکس کمیٹیاں بنا دی گئی تھیں۔