رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملے: 'ریاست کنفیوزہے کہ مذاکرات کرے یا لڑے'


کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے ایک روز بعد ہی کوئٹہ میں دہشت گردی سے سیکیورٹی اہل کار سمیت تین ہلاکتوں نے شدت پسند تنظیم کے ارادے ظاہر کر دیے ہیں۔

بدھ کو کوئٹہ کے علاقے بلبلی میں پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں کے ٹرک پر خود کش حملے میں ایک اہل کار سمیت تین افراد ہلاک جب کہ 25 زخمی ہو گئے تھے۔ ٹی ٹی پی نے واقعے کے فوری بعد اس کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔

ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب ملک میں نئی فوجی قیادت نے کمان سنبھال لی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل عاصم منیر پاکستانی فوج کے سربراہ بن گئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر نے بھی منگل کو ایک روزہ دورۂ کابل مکمل کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے نام نہاد 'وزیرِ دفاع' مفتی مزاحم نے 28 نومبر کو جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں اعلان کیا تھا کہ گروپ کے تمام علاقائی کمانڈرز پاکستان بھر میں جہاں اُنہیں رسائی مل سکتی ہے، حملے کریں۔

خیال رہے کہ ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نورولی محسود نے گروہ کے نئے تنظیمی ڈھانچے میں افغان طالبان کی طرز پرایک وزارتِ دفاع یا نظامی ادارہ بھی تشکیل دیاہے جب کہ وزیرِ دفاع کو تنظیم کی رہبری شوریٰ کا رکن بھی مقرر کیا گیاہے۔

ٹی ٹی پی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کے ردِعمل کے طور پر کیا گیا ہے۔

کوئٹہ میں پولیس کی گا ڑی پر خود کُش حملہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:57 0:00

ٹی ٹی پی کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کوئٹہ میں خودکش حملہ تنظیم کی 'وزارتِ دفاع' کی جانب سےجاری کیے گئے حکم نامے کے تحت کیا گیا۔ تنظیم کے مطابق یہ حملہ ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لیے کیا گیا۔

خیال رہے کہ اگست میں ٹی ٹی پی کے اہم رہنما عمر خالد خراسانی (جن کا اصلی نام عبدالولی مہمند تھا) افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں ایک پُراسرار بارودی بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

دہشت گردی کے "نئے دور" کا آغاز

پاکستان اور افغانستان میں شدت پسندوں کے موضوعات پر کام کرنے والے محققین اور سیکیورٹی اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات گزشتہ دو، تین ماہ سے ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت تھی جو خود بھی مذاکراتی عمل میں شریک رہے تھے۔ لہذٰا 28 نومبر کو ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی درحقیقت مذاکرات ختم ہونے کا اعلان بھی ہے۔

شدت پسندی کے موضوع پر ویب سائٹ 'خراسان ڈائری' سے منسلک صحافی احسان اللہ ٹیپو کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے حملے اگست کے بعد سے ہی جاری ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی نے اگست کے بعد سے ہی 'انتقامی کارروائیوں' کے نام پر حملے شروع کر دیے تھے۔

اُن کے بقول خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں روزانہ کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے خلاف حملے ہو رہے ہیں۔11نومبر کو جنوبی وزیرستان کے وانا بازار میں فائرنگ سے دو جب کہ 16 نومبر کو ضلع ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو قبائلی عمائدین کی ہلاکت ہوئی تھی۔

16 نومبر کوضلع لکی مروت میں پولیس موبائل وین پر ٹی ٹی پی کے حملے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ 18 نومبر کو جنوبی وزیرستان میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

احسان اللہ ٹیپو کہتے ہیں کہ "ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں یا ان سے لڑنا ہے۔ریاست میں اس معاملے پر کنفیوژن ہے۔"

ان کے بقول " اس ساری صورت حال میں وفاقی حکومت کہیں بھی نظر نہیں آ رہی جب کہ خیبر پختونخوا حکومت اور سیکیورٹی فورسز ہی دہشت گردی کی اس نئی لہر سے نبرد آزما ہیں۔"

احسان اللہ ٹیپو کہتے ہیں کہ "خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں لیویز پولیس بھی جدید ہتھیار، گاڑیوں اور لاجسٹک نہ ہونے کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔"

سنگارپور میں قائم راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ریسرچ فیلو عبدالباسط کوئٹہ شہر میں ٹی ٹی پی کے خود کش حملے کو ملک میں دہشت گردی کے ایک نئے سلسلے کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حملے شروع کرنے کے اعلان کے اگلے ہی روز کوئٹہ میں خود کش حملہ کر کے ٹی ٹی پی نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ اپنے گڑھ خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع کے باہر بھی حملے کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

اُن کے بقول مستقبل میں بھی ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے۔

نئی عسکری قیادت کے لیے نیا چیلنج

ماہرین کا کہناہے کہ نئے آرمی چیف کے لیے ملک کی صورتِ حال، خصوصاً ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ امکان ہے کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر دہشت گردی کی اس نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے پالیسی بیان میں کسی نئے فوجی آپریشن کا اعلان کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں کور کمانڈر پشاور کا چارج سنبھالنے والے لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو بھی اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ معاملات کسی منطقی انجام تک پہنچانے کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو پیغام میں اعتراف کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل جنرل فیض حمید نے شروع کیا تھا اور کالعدم تنظیم کے کمانڈرز کے ساتھ اُن کی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کابل میں طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کی ثالثی میں شروع ہوئے تھے۔ تاہم پاکستانی فوج کی جانب عسکری قیادت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ملاقاتوں کا باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔

پشاور میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی افسر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ عسکری قیادت میں تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی بھی اس انتظار میں ہے کہ نئی عسکری قیادت اُن کے حوالے سے کیا پالیسی اپناتی ہے۔


بعض سیکیورٹی ماہرین ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر کو جاری اعلامیے کو بھی اہمیت دے رہے ہیں۔

سیکیورٹی افسر کے مطابق اعلامیے میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ رواں برس جون میں ہونے والی غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی ختم کر دی گئی ہے یا نہیں۔

اُن کے بقول اس سے یہ لگ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے لیے اب تک راستے بند نہیں کیے۔

افغان طالبان کا کردار

بعض حلقے ٹی ٹی پی کی جانب سے حملے دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کو وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر کے دورۂ کابل سے بھی جوڑ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان سرحدی اُمور، ڈیورنڈ لائن، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے اور پناہ گزینوں کے معاملات پر اختلافِ رائے بھی سامنے آتا رہا ہے۔

پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستانی سرزمین پر حملے کرتے ہیں، لہذٰا افغان طالبان انہیں روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری جانب افغان طالبان نے رواں برس اپریل میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ سرحدی اضلاع خوست اور کنڑ میں پاکستان ایئر فورس کی بمباری سے کئی عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

پاکستان کی جانب سے ان حملوں کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی تھی، تاہم یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ پاکستان ایئر فورس نے ان علاقوں میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کا نشانہ بنایا تھا۔

ماہرین کے مطابق افغان طالبان کے لیے یہ مشکل امر ہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں مقیم سات سے آٹھ ہزار ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے۔

ٹی ٹی پی سے مذاکرات: دہشت گردی کے متاثرین کو کیا تحفظات ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:57 0:00

امن مذاکرات

عبدالباسط کا کہناہے کہ پاکستانی حکومت دو مرتبہ ( پچھلے سال نومبر اوررواں سال جون) میں ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پرراضی ہوئی مگر دونوں مرتبہ یہ امن مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔

اُن کے بقول یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذاکراتی عمل ناکام ہونے کی صورت میں حملوں میں تیزی آتی ہے جب کہ اس دوران ٹی ٹی پی کو خود کو منظم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ حالیہ مذاکراتی عمل کی ناکامی کے بعد بھی یہی صورتِ حال سامنے آئی تھی۔

خیال رہے کہ عمران خان کی حکومت کے دوران اس وقت کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ آئینِ پاکستان کو ماننے والے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اُن کے علاقوں میں واپسی کی اجازت دی جائے گی۔ لیکن ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔

موجودہ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ بھی کوئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات آئینِ پاکستان کے تحت کیے جائیں گے۔ تاہم یہ مذاکرات منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔

افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے نتائج

گزشتہ سال اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی حکومت سوچ رہی تھی کہ کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغانستان کی سرزمین پراپنے ٹھکانے بنانے والی ٹی ٹی پی کے لیے پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

پشاور میں تعینات سیکیورٹی افسرکے بقول، "ماضی میں پاکستانی حکومت نے بارہا سابق افغان حکومت کو افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اوربلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی حمایت اور پناہ کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔

دوسری جانب افغان طالبان کا قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے یہ مؤقف رہا ہے کہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ افغان سرزمین کو ہمسائے سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

البتہ پاکستان کے خیالات کے برعکس افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔

سابق افغان حکومت کی قید میں رہنے والے ٹی ٹی پی کے سینکڑوں جنگجوؤں کو رہائی ملی جس میں ٹی ٹی پی کے مرکزی رہنما مولوی فقیر محمد بھی شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے گزشتہ ماہ پشاور میں میڈیا کو بتایا کہ"’افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد بیشتر دہشت گرد جیل سے رہا کیے گئے اور اب امریکی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیار دہشت گرد ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔"

اسلام آباد میں خود مختار تحقیقی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپس) کی جانب سے جمع کی گئی معلومات اور اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کی نسبت رواں سال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 50 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

نومبر میں ٹی ٹی پی نے 59 حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے ۔ یہ حملے خیبر پختونخوا کے 12 اور بلوچستان کے تین اضلاع میں کیے گئے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG