رسائی کے لنکس

امریکہ نے 1988 میں لاکر بی کے مقام پر مسافر طیارے کو بم سے اڑانے والا مشتبہ شخص گرفتار کر لیا


ایف بی آئی کے مطابق ابو عجیلہ مسعود خیر المریمی لیبیا کا شہری ہے جس پر مقدمہ چلانے کے لیے اسے امریکہ لایا جارہا ہے۔
ایف بی آئی کے مطابق ابو عجیلہ مسعود خیر المریمی لیبیا کا شہری ہے جس پر مقدمہ چلانے کے لیے اسے امریکہ لایا جارہا ہے۔

امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے 1998 میں مسافر طیارے کو بم سے اڑانے کے واقعے کے ایک مشتبہ شخص کو گرفتا رکر لیا ہےجس پر جہاز میں رکھے گئے بم کو بنانے کا الزام تھا۔

ایف بی آئی کے مطابق ابو عجیلہ مسعود خیر المریمی لیبیا کا شہری ہے جس پر مقدمہ چلانے کے لیے اسے امریکہ لایا جارہا ہے۔

مسعود کی گرفتاری امریکی محکمۂ انصاف کی طرف سے ان پر مقدمہ چلانے کی دہائیوں پر محیط کوشش کے بعد عمل میں آئی ہے۔

اکیس دسمبر 1988 کو لندن سے نیویارک جانے والا امریکی مسافر طیارہ پرواز کے 38 منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں 190 امریکیوں سمیت 259 مسافر ہلاک ہوگئےتھے۔

مسافر طیارہ اسکاٹ لینڈ میں لاکربی کے مقام پر فضا میں تباہ ہوا تھا جس کا ملبہ زمین پر گرنے سے مزید 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ برطانوی سرزمین پر سب سے مہلک ترین حملہ تھا۔

امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل ولیم بار نے دو سال قبل مذکورہ واقعے میں ابو عجیلہ مسعود کے خلاف مجرمانہ الزامات کا اعلان کرتے ہوئے اس پر بم بنانے کا الزام لگایا تھا۔

ابو عجیلہ مسعود سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ لیبیا کےسابق انٹیلی جنس اہلکار ہیں۔

مسعود کی گرفتاری کے بارے میں مزید تفصیلات فوری طور پر سامنے نہیں آئیں۔البتہ انہیں ہوائی جہاز کی تباہی اور اس کے نتیجے میں مسافروں کی اموات سمیت دو مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے۔

امریکی محکمۂ انصاف نے پہلی بار سن 2020 میں مسعود کے خلاف الزامات کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت انہیں لیبیا کی ایک جیل میں غیر متعلقہ جرائم کے لیے رکھا گیا تھا۔

یہ واضح نہیں کہ امریکی حکومت نے ان کی حوالگی کے لیے کس طرح بات چیت کی۔

اسکاٹش حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طیارہ حادثے میں مرنے والوں کے اہلِ خانہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ مسعود امریکہ کی تحویل میں ہے۔

خیال رہے کہ سن 2001 میں لیبیا کے مشتبہ انٹیلی جنس آپریٹو عبدالباسط المگراہی کو پین ایم پرواز کو دھماکے سے اڑانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ المگراہی وہ واحد شخص تھے جنہیں اس حملے میں قصوروار قرار دیا گیا تھا۔

اسکاٹ لینڈ کے کراؤن آفس اور پروکیوریٹر فسکل سروس نے ایک بیان میں کہا کہ اسکاٹ لینڈ کے پراسیکیوٹرز اور پولیس برطانوی حکومت اور امریکی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس تحقیقات کو جاری رکھیں گے، جس کا واحد مقصد المگراہی کے ساتھ کام کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے۔

سن 2015 میں امریکی پی بی ایس چینل پر تین حصوں پر مشتمل 'فرنٹ لائن' دستاویزی فلم میں لاکربی بم دھماکے میں مسعود کا مشتبہ کردار توجہ کا مرکز تھا۔ یہ سیریز حملے میں مارے جانے والے ایک شخص کے بھائی کین ڈورنسٹین نے لکھی اور پروڈیوس کی تھی۔

مسعود کی گرفتاری اور اس پر امریکہ میں مقدمہ چلانے کے بارے میں جاننے کے بعد دستاویزی فلم کے پروڈیوسر ڈورنسٹین نے اخبار 'دی نیویارک ٹائمز' کو بھیجی جانے والی ایک ای میل میں لکھا، "اگر کوئی شخص اب بھی زندہ ہے جو فلائٹ 103 پر بمباری کی کہانی سنا سکتا ہے اور کئی دہائیوں کے جواب طلب سوالات کو ختم کر سکتا ہے کہ یہ (حملہ) بالکل کیسے کیا گیا، اور کیوں، یہ مسٹر مسعود ہیں"

انہوں نے مزید کہا "سوال یہ ہے کہ کیا وہ آخر کار بولنے کے لیے تیار ہے؟"

یاد رہے کہ مسعود نے سن 2012 میں لیبیا کے قانون نافذ کرنے والے ایک اہلکار کو بتایا کہ اس حملے کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔ جب امریکی تفتیش کاروں کو اس اعتراف جرم کے بارے میں پانچ سال بعد معلوم ہوا تو انہوں نے لیبیا کے اس اہلکار کا انٹرویو کیا جس نے اسے حاصل کیا تھا اور اس کے نتیجے میں مسعود پر الزامات لگائے گئے۔

البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا جنگ زدہ لیبیا کی جیل میں اس کا اعتراف جرم امریکی عدالت میں قابل قبول ہوگا یا نہیں؟

لیبیا کے حکام کے ساتھ انٹرویو میں، جو معمر قذافی کی قیادت میں حکومت کے خاتمے کے بعد کیا گیا تھا، امریکی حکام نے کہا کہ مسعود نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے بم بنایا تھا اور حملہ کرنے کے لیے دو دیگر سازشیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کا حکم لیبیا کی انٹیلی جنس نے دیا تھا ۔اس کیس میں، ایف بی آئی کے بیان حلفی کے مطابق، قذافی نے بم دھماکے کے بعد ان کا اور ٹیم کے دیگر ارکان کا شکریہ ادا کیا۔

مسعود تیونس میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کے پاس لیبیا کی شہریت ہے۔ لاکر بی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے بعد لیبیا نے ان کی حوالگی کےلیے امریکی اور برطانوی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

آخر کار اسکاٹش قانون کے تحت ان پر ہالینڈ میں مقدمہ چلایا گیا جہاں عدالت نے المگراہی کو عمر قید کی سزا سنائی جب کہ ایک اور ملزم الامین خلیفہ فہیمہ کو عدم شواہد پر بری کیا تھا۔

سن 2009 میں متاثرین کے اہل خانہ اور سابق امریکی صدر باراک اوباما سمیت امریکہ کے اعتراضات پر اسکاٹش حکام نے المگراہی کو رہا کر دیا کیوں کہ اسے پروسٹیٹ کینسر تھا۔ ان کا سن 2012 میں انتقال میں ہوا۔

استغاثہ کے مطابق پین ایم فلائٹ پر دھماکے کی تیار ی کے سلسلے میں مسعود مالٹا گئے تھے ۔ انہوں نے وہا ں وہ سوٹ کیس پہنچایا جس میں حملے میں استعمال ہونے والا بم تھا۔ مالٹا میں، استغاثہ کا کہنا تھا کہ المگراہی اور فہیمہ نے مسعود کو دھماکہ خیز ڈیوائس پر ٹائمر لگانے کو کہا تاکہ وہ اگلے دن ہوائی جہاز کو ہوا میں اڑا دے ۔

امریکی حکام کے مطابق مسعود کی پہلی عدالتی پیشی واشنگٹن ڈی سی میں ہو گی۔

اس خبر میں شامل کچھ مواد خبر رساں اداروں' ایسوسی ایٹڈ پریس اور 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG