شام اور افغانستان میں حالیہ امریکی فضائی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، امریکی نائب صدر مائیک پینس نے پیر کے روز شمالی کوریا کو سخت انتباہ جاری کیا کہ اگر کِم جونگ اُن کی حکومت جوہری خدشات کے عزائم سے باز نہیں آتی تو صدر ڈونالڈ ٹرمپ فوجی طاقت استعمال کریں گے۔
نائب صدر پینس نے کہا کہ ’’گذشتہ دو ہفتوں کے اندر دنیا نے شام اور افغانستان میں نئے صدر کی طاقت اور عزم پر مبنی اقدام کا مظاہرہ دیکھ لیا ہے۔ شمالی کوریا کو چاہیئے کہ وہ اُن کے عزم کا امتحان نہ لے‘‘۔
ایشیا کے چار ملکوں کے دورے کے آغاز پر نائب صدر اِس وقت جنوبی کوریا کا دورہ کر رہے ہیں، جس کا مقصد کشیدگی کے شکار اِس خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے ٹھوس عزم کو تقویت دینا اور کِم جونگ اُن کی حکومت کے خلاف دباؤ میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ بین الاقوامی حمایت پیدا کی جاسکے، اور یوں وہ اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل تشکیل دینے کے پروگرام ترک کرے۔
غیر متزلزل اتحاد
جنوب کوریائی صدر ہوانگ کیوئان کے ہمراہ پیر کے روز سیئول میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران، پینس نے اپنے طویل مدتی اتحادی کے دفاع کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت اور علاقائی سلامتی کے بارے میں تمام فیصلوں میں تعاون پر زور دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ایسے میں جب ہم پیش رفت کی نوعیت کے فیصلے کرتے ہیں، ہم جنوبی کوریا اور آپ کی قیادت کے ساتھ قریبی مشاورت کا عمل جاری رکھیں گے ‘‘۔
جنوبی کوریا کے متعدد لوگوں میں اِس بات پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کے خلاف یکطرفہ اقدام کر سکتا ہے، جس سے خطہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
اپنے کلمات میں، جنوبی کوریا کے قائم مقام صدر نے شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی تعزیرات میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا، جب کہ اُنھوں نے فوجی طاقت کے استعمال کے معاملے پر کچھ نہیں کہا۔
ہوانگ نے کہا کہ ’’ہم شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل خطرات کی شدت اور ضرورت سے آگاہ ہیں اور شمالی کوریا کے خلاف عالمی نیٹ ورک کا دباؤ تنگ کرنے کے اقدام کے حامی ہیں، تاکہ شمالی کوریا اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر تیار ہو جائے‘‘۔
اتوار ہی کے روز امریکی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر مک ماسٹر نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کا خطرہ کم از کم فی الحال ٹل گیا ہے۔
’اے بی سی نیوز‘ نیٹ ورک کے پروگرام ’دِس ویک‘ سے بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’وقت آگیا ہے کہ فوجی آپشن کے علاوہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں، تاکہ یہ مسئلہ پُرامن طور پر حل ہو۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے اتحادیوں اور ساجھے داروں اور چینی قیادت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ مختلف راستے تلاش کیے جا سکیں‘‘۔