امریکی حکام نے کہا ہے کہ محکمۂ دفاع (پینٹاگان) ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔
بعض امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ پینٹاگان کے اعلیٰ حکام عنقریب وائٹ ہاؤس کو ایک مجوزہ منصوبے پر بریفنگ دینے والے ہیں جس کے تحت مزید کئی ہزار امریکی فوجی اور بھاری اسلحہ مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی تجویز ہے۔
حکام کے مطابق پینٹاگان سے مزید فوجی اہل کار، جنگی جہاز اور میزائل مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی درخواست امریکی فوج کی سینٹرل کمان نے کی ہے اور اس پر وائٹ ہاؤس کو جمعرات کو بریفنگ دیے جانے کا امکان ہے۔
لیکن، تاحال یہ واضح نہیں آیا وائٹ ہاؤس سینٹ کام کی یہ درخواست منظور کرے گا یا نہیں۔
پینٹاگان نے ان اطلاعات پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ مستقبل کے دفاعی منصوبے پر رائے دینا محکمے کی پالیسی نہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب صدر ٹرمپ کی حکومت یک طرفہ طور پر اس جوہری معاہدے سے الگ ہو گئی تھی جو 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔
معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں بحال کر دی تھیں جو رواں ماہ موثر ہوئی ہیں۔
ان پابندیوں کے موثر ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے جس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب امریکہ نے اپنا طیارہ بردار جہاز، جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں اپنے مفادات پر ایران کے ممکنہ حملے کے خدشے کے پیشِ نظر کیا ہے۔ لیکن، ایران امریکہ کے اس اقدام پر سخت برہم ہے اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری ہے۔
اگر وائٹ ہاؤس نے مزید فوجی اہل کار اور اسلحہ مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی سینٹ کام کی درخواست منظور کر لی تو یہ صدر ٹرمپ کے موقف کے برخلاف اقدام ہو گا جو صدر بننے کے بعد سے بارہا بیرونِ ملک تعینات امریکی فوجیوں کو وطن واپس بلانے کی حمایت کر چکے ہیں۔