پشاور کے علاقے دیر کالونی کے مدرسے میں ایک روز قبل ہونے والے ہولناک بم دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے، جب کہ ایک طالب علم سمیت پچاس سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پشاور پولیس کے جاری کردہ بیان کے مطابق ان افراد کو منگل کے روز ہونے والے دھماکے کے بعد یکہ توت تھانے کے حدود میں ہونے والے کاروائیوں کے دوران حراست میں لیا گیا ہے۔
تفتیش کے لیے حراست میں لیے گئے افراد میں متاثرہ مدرسے کا ایک طالب علم اور مسجد کے احاطے میں زیر تعمیر ایک عمارت کے مزدور بھی شامل ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکے والے روز مدرسے کے غسل خانوں میں مرمت کا کام جاری تھا جس پر مزدوروں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مدرسے اور درس و تدریس کے لیے آنے والے طلباء کی ریکی کی گئی۔
ادھر مدرسے کے سربراہ رحیم اللہ حقانی نے ذرائع ابلاع کے ساتھ بات چیت میں تصدیق کی کہ وہ اور ان کا مدرسہ پچھلے کئی برسوں سے دہشت گردوں کے نشانے پر تھا، جب کہ چند روز قبل اُنہیں پولیس کی جانب سے ایک خط میں خطرے کی نشاندی کی گئی تھی اور اُنہوں نے پولیس سے سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی مگر پولیس نے اُنہیں سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔
پشاور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس وقار کھرل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پشاور میں تین ہزار سے زائد مدارس ہیں اور ان تمام مدارس کو سیکیورٹی فراہم کرنا مشکل ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ دیر کالونی کے مدرسے کے مہتمم کو کئی بار دہشت گردی کےخطرات سے نمٹنے کے لیے ممکنہ ہدایات پر عمل درآمد کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور اس مشورے کے تحت انہوں نے طلباء کے تلاشی شروع کی تھی، مگر بعد میں اس سلسلے کو معطل کردیا گیا۔
ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے مگر حکام کو شبہ کہ دہشت گردی کے اس واقعہ میں داعش نامی عسکریت پسند تنظیم کے جنگجو ملوث ہو سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے منگل کی شام ایک بیان میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں 30 سے زائد افراد کی نشاندہی کی جا چکی ہے جن کا تعلق افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند اور دیر سے ہے۔
ادھر پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان نے بتایا ہے کہ دھماکے کے زیادہ تر زخمیوں کو اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 90 سے زائد زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے بعد ڈسچارج کردیا گیا، جب کہ چھ زخمی تاحال لیڈی ریڈنگ اسپتال کے مختلف وارڈز میں زیر علاج ہیں۔ مدرسے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
گزشتہ روز پشاور کے علاقے دیر کالونی کے مدرسے میں ہونے والے دھماکے میں 8 افراد ہلاک، جب کہ 100 سے زائد طلبا زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب مدرسے کی انتظامیہ نے دھماکے کے بعد مدرسے میں تدریسی عمل کو ایک ہفتے کے لیے معطل کر دیا ہے۔
ادھر دہشت گردی کے اس واقعہ کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق اپنے ساتھیوں سمیت دیر کالونی کے مدرسے میں گئے جہاں انہوں نے متاثرہ افراد کے علاوہ مفتی رحیم اللہ حقانی سے بھی تعزیت کی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ثمر ہارون بلور نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کو بھی تحقیقات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔