واشنگٹن —
پشاور کے ایک سنیما گھر میں اتوار کی شام ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کے نزدیک موجود ایک سنیما گھر کے ہال میں ہوئے جن میں لگ بھگ 20 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
پشاور پولیس کے سربراہ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہورہا ہے کہ دونوں دھماکے دستی بم حملوں کا نتیجہ تھے۔ ایس پی سٹی فیصل مختار کے مطابق دھماکوں کے وقت سنیما میں اندازاً 100 لوگ موجود تھے۔
حکام کے مطابق لاشوں اور زخمیوں کو پشاور کے 'لیڈی ریڈنگ اسپتال' منتقل کیا گیا ہے جہاں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے وزیرِ اطلاعات شاہ فرما ن نے نجی ٹی وی 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پہلے ہی اس نوعیت کے حملے کی اطلاعات تھیں جس کے بعد سنیما گھروں کے مالکان کو خبردار کردیا گیا تھا اور سکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تاحال کسی تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں پاکستانی طالبان سنیما گھروں اور ویڈیو اور سی ڈی دکانوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب پاکستان کی حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہونے والا ہے۔
طالبان کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز پانچ سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کے نام پیش کیے تھےجو ترجمان کے بقول حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کریں گے۔
'جیو نیوز' سے گفتگو میں صوبائی وزیرِ اطلاعات نے سنیما گھر میں ہونے والے دھماکوں کو طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں تیسری قوت ملوث ہوسکتی ہے۔
حکام کے مطابق پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کے نزدیک موجود ایک سنیما گھر کے ہال میں ہوئے جن میں لگ بھگ 20 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
پشاور پولیس کے سربراہ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہورہا ہے کہ دونوں دھماکے دستی بم حملوں کا نتیجہ تھے۔ ایس پی سٹی فیصل مختار کے مطابق دھماکوں کے وقت سنیما میں اندازاً 100 لوگ موجود تھے۔
حکام کے مطابق لاشوں اور زخمیوں کو پشاور کے 'لیڈی ریڈنگ اسپتال' منتقل کیا گیا ہے جہاں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے وزیرِ اطلاعات شاہ فرما ن نے نجی ٹی وی 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پہلے ہی اس نوعیت کے حملے کی اطلاعات تھیں جس کے بعد سنیما گھروں کے مالکان کو خبردار کردیا گیا تھا اور سکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تاحال کسی تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں پاکستانی طالبان سنیما گھروں اور ویڈیو اور سی ڈی دکانوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب پاکستان کی حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہونے والا ہے۔
طالبان کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز پانچ سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کے نام پیش کیے تھےجو ترجمان کے بقول حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کریں گے۔
'جیو نیوز' سے گفتگو میں صوبائی وزیرِ اطلاعات نے سنیما گھر میں ہونے والے دھماکوں کو طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں تیسری قوت ملوث ہوسکتی ہے۔