'گزشتہ 20 گھنٹوں میں 40 نمازہِ جنازہ ادا کر چکا ہوں۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہم پلک جھپکتے میں ہی کیسے اتنے سارے پیاروں سے محروم ہو گئے ہیں'۔
یہ کہنا ہے پشاور شہر کے کوچہ رسال دار کے رہائشی سید عماد الدین کا، جو فاتحہ کی غرض سے اپنے دونوں ہاتھ بار بار دعا کے لیے اٹھا رہے تھے۔
کہنے کو تو عماد الدین دعا کے لیے خالی ہاتھ ہی اٹھا رہے تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ان ہاتھوں میں کئی من وزن اٹھا رہے ہوں۔
جمعے کو پشاور کے علاقے کوچہ رسال دار میں قائم شیعہ جامع مسجد میں ہونے والے خود کش حملے میں 62 افراد ہلاک جب کہ لگ بھگ 200 زخمی ہوئے تھے۔
کاروباری سرگرمیوں، فوڈ اسٹریٹ، چائے خانوں اور پرانے سامان کی خرید و فروخت کے لیے مشہور قصہ خوانی بازار میں اب ہر جانب 'انتقال پر ملال' کے بورڈ آویزاں ہیں۔
واقعے کے 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی مسجد سے ملحقہ گلیوں میں تباہی کے آثار موجود ہیں۔
اس مسجد کی تمام تر کھڑکیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ یہاں اندر رکھے قرآن بھی خون لگنے کے باعث سرخ ہو چکے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے مسجد کے اندر جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
قصہ خوانی بازار میں واقع کوچہ رسال دار کی تنگ و تاریک گلیاں جو کہ عام لوگوں کے زیرِ استعمال تھیں اب سیکیورٹی چیک پوائنٹس میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر آنے جانے والے کی مکمل تلاشی لی جاتی ہے۔
تاہم یہاں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے جو کرنا تھا وہ کر کے چلے گئے اب سیکیورٹی والوں نے یہاں کے عام عوام کو ہی تلاشی کی غرض سے تنگ کرنا ہے۔
سید عماد الدین سیکیورٹی میں حالیہ اضافے کو سانپ کے چلے جانے کے بعد رسی کو پیٹنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
سیکیورٹی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کچھ روز پہلے ہی یہاں ایک دستی بم حملہ ہوا تھا جب کہ اس سے قبل یہاں کوہاٹی گیٹ کے قریب ایک چرچ کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے بقول اس لحاظ سے یہ علاقہ دہشت گردی کے واقعات کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔
پشاور میں کوچہ رسال دار کو اہلِ تشیع برادری کا سب سے بڑا علاقہ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اسلامی مہینے محرم میں جلوس کا آغاز اور اختتام یہیں پر ہی ہوتا ہے۔
علی امین کا تعلق اہلسنت سے ہے۔ ہفتے کو ہونے والے اجتماعی جنازوں میں وہ بھی شریک تھے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عوام کو فرقہ واریت سے نکل کر دہشت گردوں کے قابل مذمت عزائم کو پست کرنا ہو گا۔ یہی اس کی سب سے بہترین مثال ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جمعے سے ہر تعزیت میں شریک ہیں حالاں کہ ہلاک ہونے والوں میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔
اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال زیادہ تر افراد میڈیا، خاص طور پر کیمرے کے سامنے بات کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
انہی میں سے ایک میر فتح علی خان کے لواحقین نے بتایا کہ میڈیا پر وہ سالہاں سال سے بیانات دیے جا رہے ہیں البتہ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی تمام تر توجہ اپنے پیاروں کے ایثالِ ثواب پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں نہ کہ لا حاصل ہونے والی میڈیا گفتگو پر۔
کوچہ رسال دار میں واقع جامع مسجد کے چاروں اطراف رہائشی عمارتیں ہیں۔ اس محلے کے باہر ایک مین گیٹ نصب ہے جسے پار کرنے کے بعد پہلے مسجد کا مرکزی دروازہ آتا ہے اور ساتھ ہی ایک تنگ گلی رہائشی گھروں کی جانب نکل جاتی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ دھماکے کے بعد یہاں شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو نکالا اور قریبی لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا۔ کیوں کہ ایمبولنس کے لیے راستے کافی دشوار تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری عالمی شدت پسند تنظیم 'داعش' نے قبول کی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ مسجد کے باہر سیکیورٹی کے انتظامات کیے گیے تھے۔ دہشت گرد پولیس اہل کار کو ہلاک کرنے کے بعد ہی مسجد میں اندر جانے میں کامیاب ہوا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص رکشے سے اترنے کے بعد جامع مسجد کی جانب بڑھتا ہے اور ساتھ ہی وہ افرا تفری مچانے کے لیے پہلے گیٹ پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے پولیس اہل کار کو نشانہ بناتا ہے جب کہ بعد میں مزید فائر کرتا ہے۔ جس کے بعد مسجد کے اندر اپنے آپ کو بارودی مواد کے ساتھ اڑا دیتا ہے۔
ہفتے لو خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ خود کش بم بار کے سہولت کاروں کی نشان دہی کر لی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 48 گھنٹوں میں نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حساس مقامات کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔