صحافیوں کی ملک گیر تنظیم، پی ایف یو جے نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے میڈیا کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کے خلاف منصوبہ بنایا۔ حکومت اس بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں۔ عدلیہ سے کوئی امید نہیں رہی۔ 9 اکتوبر سے احتجاج کیا جائے گا۔
میڈیا ادارے کافی عرصے سے شکایت کر رہے ہیں کہ اخبارات کی تقسیم میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، جبکہ نیوز چینلوں کو کیبل آپریٹروں پر دباؤ کے ذریعے روکا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں سیلف سنسرشپ بڑھ رہی ہے اور رپورٹروں، کالم نگاروں اور اینکروں کا کہنا ہے کہ ان کی خبریں، کالم اور پروگرام روکے جارہے ہیں۔
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تنظیم نے الیکشن سے پہلے مہم شروع کی تھی کہ میڈیا پر دباؤ نہ ڈالا جائے ورنہ منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ انھیں معلوم ہوا تھا کہ مختلف نیوز چینلوں پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ الیکشن کے موقع پر اس مہم کو روک دیا گیا، تاکہ نئی حکومت کو صورتحال ٹھیک کرنے کا موقع دیا جائے۔ اب حکومت کو قائم ہوئے ایک ڈیڑھ مہینہ ہوچکا ہے۔ لیکن، اس نے پی ایف یو جے کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
افضل بٹ نے کہا کہ میڈیا کی صنعت بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ ملک بھر کے اخبارات نے اپنے صفحات کم کردیے ہیں۔ جب کسی اخبار کے صفحات کم ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست نقصان میڈیا کارکنوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ مالک کہتا ہے کہ ان صفحات کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی ضرورت نہیں۔ ایک بڑے میڈیا گروپ نے مالی مشکلات کی وجہ سے اپنے اردو اخبار، انگریزی اخبار اور ٹی وی چینل کا نیوزروم اور رپورٹنگ ایک کردی ہے۔ ہر ادارے میں چھانٹیوں کی تلوار لٹک رہی ہے اور میڈیا ورکر پریشان ہیں۔
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ میڈیا کو دباؤ میں لینے کا منصوبہ اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ عدلیہ نے اس پر ریلیف نہیں دیا۔ حکومت اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ نو اکتوبر کو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس، ایڈیٹرز کی تنظیم سی پی این ای، چینل مالکان کی تنظیم پی بی اے کو بھی خط لکھ رہے ہیں کہ میڈیا کو جس سرجیکل اسٹرائیک کا سامنا ہے، اس کا مل کر مقابلہ کریں۔ تمام اسٹیک ہولڈر اکٹھے ہوجائیں گے تو پابندیوں کا مقابلہ بھی کرلیں گے، چھانٹیاں بھی رک جائیں گی اور اگر تحریک چلانے کی ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ بار، ہیومن رائٹس کمیشن اور جمہوری قوتیں بھی ساتھ دیں گی۔
پی ایف یو جے کے سابق صدر، مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں اخبارات کو بند کردیا جاتا تھا۔ صحافیوں کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ ان پر مقدمات قائم کیے جاتے تھے۔ مقدمات اب بھی قائم کیے جارہے ہیں۔ لیکن اخبارات یا چینلوں کو بند کرنے کے بجائے دوسری ترکیب استعمال کی جا رہی ہے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ میڈیا اداروں کو مالی طور پر غیر مستحکم کرکے دو مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ ایک یہ کہ مالی مشکلات کےشکار ادارے چھانٹیاں کریں گے اور کارکن بیروزگار ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ کارکنوں اور مالکان کا کوئی اتحاد بننے کا امکان ہو تو اسے بھی توڑا جائے۔
مظہر عباس نے کہا کہ پی ایف یو جے کے لیے بھی کچھ سوالات ہیں کہ اتنی مشکل صورتحال کے باوجود مختلف دھڑے کیوں بنے ہوئے ہیں؟ پی ایف یو جے اختلافات ختم کرکے یکجا کیوں نہیں ہو رہی؟ اگر متحد نہیں ہوں گے تو اتنے بڑے چیلنجوں کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔ میرا خیال ہے کہ مستقبل میں صورتحال اور زیادہ خراب ہوگی۔
کراچی پریس کلب کے سابق صدر علاؤ الدین خانزادہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافت کا برا حال ہے لیکن اس کے ذمے دار خود صحافی اکابرین ہیں۔ پی ایف یو جے کئی حصوں میں تقسیم ہے اور ہر حصہ دوسرے دھڑے کے خلاف صف آرا ہے۔ پاکستانی صحافت کو کئی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ عامل صحافیوں پر سب سے بڑا دباؤ میڈیا اداروں کے مالکان کا ہے۔ اس کے بعد حکومت کا دباؤ ہے۔ اس کے بعد بعض ریاستی اداروں کی جانب سے بھی دباؤ ہے۔
علاؤ الدین خانزادہ نے کہا کہ انھیں پی ایف یو جے کے موجودہ رہنماؤں کے ہوتے ہوئے اتحاد ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر متحد ہوجائیں تو پھر ہر دباؤ کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں بھی کیا ہے، آج بھی ہوسکتا ہے اور آئندہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
سینئر صحافیوں کا خیال ہے کہ صحافی برادری متحد نہ ہوئی تو مستقبل میں حالات ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہوں گے اور اس کا نتیجہ کئی اخبارات اور نیوز چینلوں کی بندش کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔