رسائی کے لنکس

دواؤں کی قیمتوں کو ڈی-ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ؛ 'مہنگی سہی اب دوائی مل تو جائے گی'


  • پاکستان کی حکومت نے نان ایسینشل ادویات کی قیمتیں ڈی-ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
  • اب دوا ساز کمپنیوں کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ ان ادویات کی قیمتوں کا تعین کر سکیں گی۔
  • حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مارکیٹ میں دواؤں کی قلت کے سدِباب کے لیے کیا گیا ہے۔
  • صارفین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے دوا ساز کمپنیوں کو دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کا اختیار مل جائے گا۔
  • امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں دواؤں کی قیمتوں کا تعین حکومت نہیں کرتی: سابق صدر پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن

محمد سلیم کے والد لاہور کے سروسز اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں سے اُنہیں کچھ ادویات تو مفت مل جاتی ہیں۔ لیکن بہت سی ادویات اُنہیں بازار سے خریدنی پڑتی ہیں۔

حکومت کی جانب سے نان ایسینشل ادویات کی قیمتیں ڈی-ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے محمد سلیم جیسے دیگر افراد پریشان ہیں۔

حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے آئے روز دواؤں کی قلت کا خاتمہ ہو سکے گا۔ تاہم بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس سے دوا ساز کمپنیوں کو دواؤں کی قیمتوں میں اپنی مرضی سے اضافے کا موقع مل جائے گا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر وزارتِ صحت نے دواؤں کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔

دواؤں کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی منظوری ایسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن سینٹر (ایس آئی ایف سی) کی جانب سے دی گئی تھی۔

تنویز احمد کی اہلیہ لاہور کے گنگا رام اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ اُن کے بقول گو کہ حکومت کے اس اقدام سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ لیکن کم از کم یہ ادویات دستیاب تو ہوں گی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں دوا سازی کی صنعت میں کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں دواؤں کی قیمتوں سے متعلق پالیسی میں تسلسل نہ ہونے کی شکایات کرتی رہی ہیں۔

ان کمپنیوں کی جانب سے کئی مواقع پر کاروبار بند کرنے کا انتباہ بھی کیا جاتا رہا ہے اور اس دوران بعض ادویات کی پروڈکشن روکنے اور مارکیٹ میں اس کی عدم دستیابی کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔

تنویر احمد کے بقول ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بعض اوقات اُنہیں اپنی اہلیہ کے لیے بیرون ممالک سے دوا منگوانی پڑتی ہے۔

پاکستان میں ادویات کو دو مختلف درجوں (کیٹیگریز) میں رکھا گیا ہے۔ ایک ایسینشل میڈیسن (جان بچانے والی دواؤں سمیت اس نوعیت کی دیگر دوائیں) اور دوسری نان ایسینشل میڈیسن ہیں۔

اسینشل ادویات کی قیمتوں میں کمی یا بیشی وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہی ہو گی جب کہ نان ایسینشل ادویات جن میں بخار، زکام، سر درد، بلڈ پریشر، ملٹی وٹامنز، اینٹی الرجی اور اینٹی بائیوٹکس شامل ہیں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا حکومت کے دائرۂ کار میں نہیں ہو گا۔

یاد رہے کہ اِس سے قبل پاکستان کی نگراں حکومت نے بھی ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر تنقید کے سبب اسے واپس لے لیا گیا تھا۔

دوا ساز کمپنیاں خوش

پاکستان میں مقامی اور بین الاقوامی دوا ساز ادارے حکومت کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ تاہم فارماسسٹ ڈرگ ایسوسی ایشنز اس فیصلے کے خلاف ہیں۔

پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں دواؤں کی قیمتوں کا تعین حکومت نہیں کرتی۔

اُن کے بقول بھارت، بنگلہ دیش اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی کچھ ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے جب کہ دیگر کا تعین دوا ساز کمپنیاں ہی کرتی ہیں۔

حامد رضا کہتے ہیں کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام دیگر ملکوں کے مقابلے میں پہلے ہی بہت سخت ہے۔

پاکستان میں غیر ملکی ادویات بنانے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم فارما بیورو کی ترجمان عائشہ ٹمی حق بھی حامد رضا کے مؤقف کی تائید کرتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا پاکستان میں اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ دوائیں مہنگی ہیں۔ کیوں کہ ایسینشل ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول اب بھی حکومت کے پاس ہی ہے۔

اُن کے بقول فیصلے سے ایسینشل اور نان ایسینشل ادویات الگ الگ ہو گئی ہیں جس کا فائدہ مریض کو ہی ہو گا اور دوائیں نہ ملنے کی شکایات ختم ہو جائیں گی۔

ڈرگ ایسوسی ایشن کے نمائندے اس فیصلے کو مسترد کر رہے ہیں۔

فارماسسٹ ڈرگ فورم کے صدر ڈاکٹر نور مہر سمجھتے ہیں کہ حکومتی فیصلے سے ملک میں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

اُن کے بقول اس اقدام سے سارا فائدہ ادویہ ساز کمپنیوں کو ہو گا جس کے خلاف اُن کی تنظیم ملک بھر میں دو جولائی کو احتجاج کرے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نور مہر کا کہنا تھا کہ حکومتی نوٹی فکیشن سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ طاقت ور ادویہ ساز مالکان جیت گئے ہیں۔

اُن کے بقول اب ہر کمپنی کی مرضی ہو گی کہ وہ اپنی دوائی اپنی من مانی قیمت پر فروخت کریں جس کا نقصان عوام اور مریضوں کو ہو گا۔

ڈاکٹر نور مہر کا کہنا تھا کہ حکومتی نوٹی فکیشن سے فارما سیوٹیکل کمپینوں، امپورٹرز اور مقامی ڈسٹری بیوٹرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی دوائی کسی بھی قیمت پر بیچ سکتے ہیں۔

حامد رضا کے مطابق خام مال مہنگا ہونے اور ڈالر ریٹ میں اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے دوا ساز کمپنیوں کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

اُن کے بقول یہی وجہ تھی کہ دوا ساز کمپنیاں بعض دواؤں کی پیداوار روک دیتی تھیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں دواؤں کی قلت ہو جاتی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ تھی کہ دوا ساز کمپنیوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ دواؤں کی قیمتوں کے تعین کے لیے کوئی طریقۂ کار وضع کیا جائے۔

ڈاکٹر نور مہر کے مطابق حکومت کے اس اقدام سے دواؤں کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا اور عام آدمی پر اس کا بوجھ پڑے گا۔

عائشہ ٹمی حق کہتی ہیں کہ حکومت نے دوا ساز کمپنیوں پر ٹیکسز میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

حامد رضا کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں کہ دوا ساز کمپنیاں قیمتوں میں مرضی سے اضافہ کریں گی۔

اُن کے بقول مارکیٹ میں مقابلے کا ماحول ہے۔ لہذٰا دوا ساز کمپنیاں بھی مارکیٹ کی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی قیمتوں کا تعین کریں گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG