رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: 'خان نے ایک دن تو باہر آنا ہی ہے'


  • عدت میں نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلے کے موقع پر پی ٹی آئی کے کارکن بھی موجود تھے۔
  • فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی خواتین کارکنوں روتی دکھائی دیں۔
  • سخت گرمی اور درجنوں وکلا، صحافیوں اور کارکنوں کی موجودگی میں کمرۂ عدالت میں شدید حبس تھا۔
  • ٹھیک تین بجے جج اور آئے صرف اتنا کہا کہ یہ پٹیشنز ڈس مس کی جاتی ہیں۔

عدت میں نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی ہونے والے آرڈر سے اندازہ ہو گیا تھا کہ آج فیصلہ کیا آ سکتا ہے۔

جج افضل مجوکا نے ایس ایس پی اسلام آباد کو 16 جولائی کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کا لکھا تھا۔

سخت گرمی، درجنوں پی ٹی آئی وکلا، درجنوں صحافی اور پی ٹی آئی ورکرز ایک ہی کمرے میں سب جمع ہو جائیں تو گرمی اور حبس کا جو حال ہو سکتا ہے وہی ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا کی عدالت میں تھا۔

دو، دو ایئر کنڈیشنر چلنے کے باوجود کمرے میں موجودہ 100 سے زائد افراد کی وجہ سے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں تھی اور ہر شخص پسینے میں شرابور تھا اور کوئی باہر جانے کو تیار نہیں تھا۔

ٹھیک تین بجے جج عدالت میں آئے اور صرف اتنا کہا کہ تفصیلی فیصلہ جلد جاری کر دیا جائے گا۔ لیکن "یہ پٹیشنز ڈس مس کی جاتی ہیں۔"

اتنا کہنے کے بعد وہ واپس اپنے چیمبر میں چلے گئے اور پی ٹی آئی کے وکلا اور ورکر سر جھکائے باہر کی طرف چلنے لگے۔ عدالت کے باہر پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جو فیصلہ سنائے جانے کے بعد روتی ہوئی بھی دکھائی دیں۔

اس کیس میں جج قدرت اللہ نے تین فروری کو عمران خان اور بشریٰ بی بیٰ کو عدت میں نکاح کا مجرم قرار دیتے ہوئے سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

عدت میں نکاح کیس میں سزا معطلی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے ورکرز بہت پرامید تھے کہ عمران خان کو ریلیف ملے گا اور وہ باہر آ سکیں گے۔ لیکن انہیں اس فیصلے سے بہت مایوسی ہوئی۔

فیصلے کے بعد کچہری کے باہر مین روڈ کو کارکنوں نے بلاک کردیا اور تقریباً ایک گھنٹے تک عمران خان کے حق میں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی ہوتی رہی جس کے بعد تمام کارکنان آہستہ آہستہ گھروں کو چلے گئے۔

عدالت نے اس بارے میں 10 صفحات پر تفصیلی فیصلہ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملزمان کے پاس سزا معطلی کا کوئی جواز موجود نہیں۔

بشریٰ بی بی کا خاتون ہونا سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا جواز نہیں، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔

عدالتی حکم نامے کے مطابق سزا معطلی یا ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران میرٹس پر بات نہیں کی جا سکتی۔ دونوں ملزمان کو دی گئی سزا نہ تو قلیل مدتی ہے نہ ہی وہ سزا کا زیادہ حصہ بھگت چکے ہیں۔

فیصلے میں عدالت کا پاکستان کریمنل لا جرنل میں موجود محمد ریاض بنام سرکارکیس کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں کہا گیا کہ محمد ریاض بنام سرکار کیس کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ضمانت انڈر ٹرائل ملزم کا حق ہے لیکن سزا یافتہ کا نہیں۔

عدالت نے کہا کہ اپیل کا فیصلہ دو ہفتے میں ہونا ہے۔ لہذا اس وقت سزا معطلی کا جواز نہیں۔

اپیل پر تو ایک درخواست گزار کی جانب سے جزوی دلائل بھی دیے جا چکے ہیں۔

سزا معطلی کی قانونی شق کو ضمانت کی قانونی شق کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپیلیں زیر التوا ہوں تو سزا معطلی کو درخواست گزار کا استحقاق قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت دو جولائی کو ہو گی۔

سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلے کا اندازہ بہت سے صحافیوں کو اسی وقت ہو چکا تھا جب ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا کی طرف سے ایس ایس پی اسلام آباد کو لکھا ایک خط کا علم ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ 16 جولائی کو خصوصی حفاظتی انتظامات کرنے اور دوسرے خط میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدالت میں پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔

اگر آج ضمانت دی جاتی تو ان خطوط کے لکھے جانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ لیکن ان خطوط کے بعد اندازہ تو تھا کہ کیا فیصلہ آئے گا اور عدالتی فیصلہ بھی یہی آیا کہ عمران خان ابھی جیل کے اندر رہی رہیں گے۔

باہر موجود ایک کارکن نے وزیرِ اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "انہوں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ خان کو اندر رکھیں گے۔"

"رکھ لیں لیکن کب تک رکھیں گے اندر،،خان نے آنا تو ہے ایک دن.. پھر ان سب سے نمٹیں گے۔"

فورم

XS
SM
MD
LG