وقاص نے مجھے کال کر کے کہا کہ ہم عید پر گھر آرہے ہیں لیکن آپ کسی کو نہ بتائیں تاکہ سرپرائز رہے۔ دیکھیے کیسا سرپرائز ہے کہ آج سارے پاکستان کو معلوم ہے کہ وہ پہنچ نہیں سکا۔ یہ الفاظ ہیں خورشید کے جو پی آئی اے کی پرواز 8303 میں سوار اپنے بھتیجے وقاص، ان کی اہلیہ ندا اور دو بچوں کی معلومات کے لیے اسپتالوں کے چکر کاٹ رہے تھے۔
لاہور سے کراچی آنے والی یہ پرواز 91 مسافروں اور عملے کے آٹھ افراد کو لے کر روانہ ہوئی۔ لینڈنگ سے کچھ لمحے قبل کپتان نے کنٹرول ٹاور کو انجن کی خرابی کا بتایا تو کنٹرول ٹاور نے انہیں پہلے بیلی لینڈنگ کا کہا پھر کہا کہ دونوں رن وے خالی ہیں۔
اسی وقت کپتان سجاد گل نے مے ڈے، مے ڈے کی کال دی یہ وہی لمحہ تھا جب جہاز کا رخ رن وے کے بجائے آبادی کی طرف ہوا اور جناح ایونیو کی رہائشی آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا۔ جس کی زد میں رہائشی عمارتیں اور گلیاں بھی آئیں۔
جہاز کا ملبہ دور دور تک گھروں کی چھتوں اور گلیوں میں بکھرا دکھائی دیا۔ لیکن اس المناک حادثے میں دو افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے جن میں بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعور اور ایک نوجوان محمد زبیر شامل ہیں۔
لیکن جو لوگ منزل پر پہنچنے سے قبل ہی ہمیشہ کے لیے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ان کے پیارے انہیں ڈھونڈنے اسپتالوں کے چکر کاٹتے رہے۔
ملیر کے علاقہ ماڈل کالونی کی رہائشی عشرت کا کہنا ہے کہ وہ جمعے کی نماز کی تیاری کر رہی تھیں کہ انہیں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ آواز بہت شدید تھی لیکن انہیں یہ محسوس ہو گیا کہ یہ جہاز کی ہے کیوں کہ لینڈنگ ٹیک آف کر کے یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی آوازیں سننے کی وہ عادی ہیں۔
نماز شروع کی تو زور دار دھماکے کی آواز آئی، نماز ختم ہوئی تو ان کے بھائی کو ان کے دوست کی کال موصول ہوئی کہ وہ کہاں ہیں ان کے گھر کے پاس جہاز گرا ہے۔ عشرت کے مطابق انہوں نےفوراً کھڑکی سے باہر دیکھا تو انہیں دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ یہ حادثہ ان کے گھر سے کچھ دور ہوا لیکن اب تک ان کی والدہ کے اوسان بحال نہیں ہو سکے۔
پینتیس سالہ وقاص ان کی اہلیہ ندا دونوں ہی ملازمت کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے اور عید پر اپنے دو بچوں کے ہمراہ کراچی آرہے تھے۔ ان کے چچا خورشید اپنے پیاروں کی خبر لینے کئی گھنٹوں سے اسپتال میں موجود رہے۔
انہیں بتایا گیا کہ ان کے بھتیجے کا بیٹا ایان زخمی ہے اور جناح اسپتال میں زیرِ علاج ہے لیکن یہ محض خبر ہی تھی۔ کیوں کہ شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی نے تصدیق کی کہ ان کے پاس رات تک آنے والی 35 لاشوں میں سے پانچ کی شناخت ہو سکی ہے جنہیں لواحقین کے سپرد کر دیا گیا۔ باقی لاشیں ناقابل شناخت ہونے کے سبب اب ڈی این اے کے لیے اسپتال میں موجود ہیں۔
اسی جہاز میں سوار لیفٹننٹ میر بالاج بگٹی کے اہل خانہ اور دوستوں کی بڑی تعداد جناح اسپتال میں موجود رہی۔ بالاج کے ماموں وسیم لاشاری کے مطابق رات کو ان کی بھانجے سے بات ہوئی وہ اس وقت لاہور میں اپنے بیج میٹ کے ساتھ تھے۔ "میں نے پوچھا کہ تم عید پر گھر آرہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں ماموں ابھی بھی کووڈ-19کی صورتِ حال ہے تو ہمیں چھٹی نہیں مل رہی تو میں نہیں آ پاؤں گا۔"
میں یہی سمجھا کہ اس کا آنا ممکن نہیں۔ لیکن دوپہر میں جب یہ حادثہ پیش آیا تو بالاج کی والدہ نے مجھے کال کی کہ ایک جہاز گرا ہے اس کی معلومات لو، کون سی فلائٹ تھی کہیں بالاج اس میں تو نہیں؟ میں نے بتایا کہ اس نے مجھے تو آنے کا منع کردیا تھا تو میری بہن نے کہا کہ وہ سرپرائز دینے کے موڈ میں تھا تم پتا کر لو کہ وہ کہیں اس فلائٹ میں نہ ہو۔
وسیم کے مطابق اُنہیں اُمید تھی کہ ان کا بھانجا سلامت ہو گا۔ کیوں کہ کوئی بھی اپنے پیاروں کو کھونا نہیں چاہتا۔ لیکن پھر تھوڑی دیر بعد وہ خبر مل گئی جو ہم نہیں سننا چاہتے تھے۔
جناح اسپتال میں ایمرجنسی کے باہر آویزاں کی گئی زخمیوں کی لسٹ جو سب ماڈل کالونی کے رہائشی تھے۔ بہت سے افراد اسے بار بار پڑھتے اور پوچھتے تھے کہ کیا یہ لوگ جہاز میں تھے؟ کیا یہ سب زندہ ہیں؟ پھر انہیں وہاں کھڑے رینجرز کے اہلکار بتاتے کہ اس لسٹ کا حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے مسافروں سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی لسٹ کو بار بار پریشانی سے اور نم آنکھوں سے دیکھنے والے نوجوان عقیل خان بھی تھے جن کے بچپن کے کلاس فیلو حمزہ اس فلائٹ سے کراچی آرہے تھے۔ حمزہ پاکستان آرمی سے ابھی حال ہی میں پاس آوٹ ہوئے تھے اور اپنے دوستوں اور گھر والوں سے ملنے آرہے تھے۔
عقیل کے مطابق "میری حمزہ سے دو دن پہلے بات ہوئی تھی اس نے مجھے بتایا کہ میں کراچی آرہا ہوں۔ وہ کووڈ-19 کے سبب پاسنگ آوٹ کے بعد بھی چھٹی پر نہیں آ سکا تھا۔
اب یہ پہلا موقع تھا جب فلائٹ آپریشن بحال ہونے کے بعد وہ عید منانے گھر آرہا تھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ خوشی کا موقع ہے وہ آجائے تو سب پرانے دوست مل بیٹھیں گے اور پرانی یادیں تازہ کریں گے۔
لاہور سے کراچی آنے والی اسی پرواز میں ماڈل زارا عابد بھی تھیں۔ شو بز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ان کے بہت سے ساتھی جناح اور سول اسپتال میں ان کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میک اپ آرٹسٹ اور زارا کے دوست عاکف الیاس نےبتایا کہ "آخری بار میری زارا سے بات اس وقت ہوئی جب وہ جہاز میں سوار ہوئی تھی۔ اس نے مجھے وائس نوٹ کیا کہ میں آ رہی ہوں انشا اللہ پھر کل شوٹ کرتے ہیں۔"
اس کے بعد ہمیں اطلاح ملی کہ جہاز کریش ہو گیا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ آ رہی ہے تو تب سے سارا شوبز مجھ سے رابطے میں ہے کہ کچھ معلوم ہو جائے وہ لاہور بھی ایک شوٹ کے سلسلے میں گئی ہوئی تھی۔
ہم اب تک بہت سے اسپتالوں کا چکر لگا چکے ہیں اور معجزے کے منتظر ہیں۔ لیکن جس طرح کی جلی ہوئی لاشیں اسپتال آ رہی ہیں ان کی حالت دیکھ کر شناخت کرنا مشکل ہے۔
عاکف کے مطابق "زارا بہت اچھی شخصیت کی مالک تھیں اور بہت کم وقت میں انہوں نے اپنا نام بنایا لیکن یہ وقت بہت کڑا ہے اور ہم اب بھی امید کر رہے ہیں کہ کچھ بہتر خبر مل سکے۔"
ہفتے کی صبح محکمہ صحت کی جاری کردہ حتمی فہرست کے مطابق جہاز میں سوار 99 افراد میں سے 97 افراد کی لاشیں اسپتالوں میں منتقل کرنے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ جس میں 66 لاشیں جناح اسپتال لائی گئیں 31 لاشیں سول اسپتال میں ہیں جبکہ اب تک شناخت ہونے والی لاشوں کی تعداد 19 ہے۔ صرف دو افراد معجزانہ طور پر اس حادثے میں محفوظ رہے جو سول اور دارلصحت اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
اس جہاز میں سوار بہت سے افراد کے اہل خانہ کا یہی کہنا تھا کہ ان کے پیارے اس عید پر اپنے گھر سرپرائز دینے آرہے تھے۔ کرونا کے سبب ملک بھر میں فضائی آپریشن معطل تھا۔ لیکن حال ہی میں بحال ہونے والی پروازوں سے ان لوگوں کو آنے کی زیادہ خوشی تھی جو کئی ماہ سے اپنے گھروں کو واپسی کے منتظر تھے۔ یہ واپسی ممکن نہ ہوسکی صرف لینڈنگ سے چند سیکنڈز پہلے ہی جہاز کو حادثہ پیش آ گیا۔
جائے حادثہ اور رن وے کے درمیان فاصلہ دیکھیں تو یہ وہ فاصلہ ہے جب کپتان لینڈنگ کا اعلان کر چکا ہوتا ہے۔ ایئر ہوسٹس تمام مسافروں سے سیٹ بیلٹ باندھے رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک راؤنڈ لگاتی ہیں کہ سیٹ کی پشت سیدھی ہو، کھانے کی میز کھلی نہ ہو۔ اخبارات واپس لے لیے گئے ہوں اور پھر کپتان کی اگلی ہدایت پر وہ بھی اپنے نشستوں پر بیٹھ جاتی ہیں۔
یہ وہی وقت ہوتا جب جہاز کے پہیے کھل چکے ہوتے ہیں۔ مسافر جہاز کی کھڑکی سے باہرکا منظر ضرور دیکھتے ہیں کہ اب بس رن وے آنے کو ہے۔ کچھ تو اپنے ساتھ بیٹھے بچوں کو بتاتے ہیں کہ وہ دیکھو وہ بلڈنگ نظر آئی ہمارا گھر اس کے پاس ہی تو ہے۔
کچھ مسافر اسی وقت موبائل آن کر کے اپنے پیاروں کو پہنچنے کی اطلاع بھی دے دیتے ہیں۔ کچھ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ پچھلی سیٹ ملی ہے اب جہاز سے اترنے میں کتنا وقت لگے گا۔ اگلی بار بہت پہلے بکنگ کرا کے آگے کی نشست ہی لوں تاکہ انتظار کی زحمت نہ ہو۔
اعصاب شکن انتظار تو ختم ہو گیا اب بس اپنے پیاروں کو گھر لے جانے کی باری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس بار جناح ٹرمینل نہیں بلکہ سول اور جناح اسپتال میں پی کے 8303 کے ابدی نیند سونے والے مسافر اپنے عزیزوں کا انتظار کر رہے ہیں۔