پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی برطانیہ اور یورپ جانے والی پروازوں پر پابندی کی وجہ سے پی آئی اے کو ایک سال میں 30 ارب روپے سے زائد کے نقصانات کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر ایئرلائنز آنے سے اربوں روپے کا یہ منافع ان غیر ملکی ایئرلائنز کو جارہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کے ایک بیان کی وجہ سے لگنے والی اس پابندی کی وجہ سے پی آئی اے بحران سے نہیں نکل پارہی۔
خیال رہے کہ وفاقی وزیر نے مئی میں پی آئی اے طیارہ حادثے کے بعد قومی اسمبلی میں یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان میں سیکڑوں پائلٹس کے لائسنس مشکوک یا جعلی ہیں۔
پی آئی اے کا کہنا ہے کہ دیگر ایئرلائنز کو لینڈنگ رائٹس دینے سے ان غیرملکی ایئرلائنز کی اجارہ داری قائم ہورہی ہے جب کہ ایوی ایشن ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں قومی ایئرلائن کو ہر بات پر فوقیت دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں پی آئی اے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ پی آئی اے کا کماؤ روٹ
پی آئی اے اپنی تاریخ کے ایک بحران سے گزر رہی ہے اور رواں سال صرف ایک سیکٹر برطانیہ میں پی آئی اے پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے اب تک پی آئی اے کو 30 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔
ایوی ایشن زرائع کے مطابق پی آئی اے کی آمدن دو بڑے سیکٹرز سے حاصل کی جاتی تھی۔ جن میں ایک برطانیہ اور دوسرا حج و عمرہ کی وجہ سے سعودی عرب تھا۔
کرونا کی وجہ سے عمرہ اور حج کے لیے لوگ نہیں جا پا رہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کا روٹ تقریباً بند ہے جب کہ پی آئی اے کا برطانیہ سیکٹر مکمل طور پر بند ہے۔
پی آئی اے کی آمدن کا 37 فی صد برطانیہ اور 37 فی صد ہی سعودی عرب سیکٹر سے حاصل کیا جاتا تھا۔ ان دونوں کے تقریباً بند ہونے سے پی آئی اے کو اپنے ریونیو میں 74 فی صد تک کمی کا سامنا ہے۔
صرف برطانیہ سیکٹر سے پی آئی اے کو سالانہ 50 ارب روپے آمدن ہوتی تھی۔ جو رواں سال مارچ سے اب تک بند ہے اور اندازے کے مطابق 30 ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔
سینئر ایوی ایشن صحافی طارق ابوالحسن کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو صرف پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ روٹس دیگر ایئرلائنز کو دینے سے بھی بھاری نقصان ہورہا ہے۔
طارق ابوالحسن کا کہنا تھا کہ اس روٹ پر جہاز چلنے کی وجہ سے پی آئی اے اب تک کسی نہ کسی صورت میں کام کررہی تھی۔ لیکن اب اس روٹ کے بند ہونے اور چارٹر جہاز لانے کی وجہ سے مالی خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں اور اب بھی اس ایئر لائن کا کوئی نہیں سوچ رہا اور غیر ملکی ایئرلائنز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
ان کے بقول ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جب پی آئی اے واپس آئے گی تو اسے پھر بزنس مل جائے گا، لیکن یہ انتا آسان نہیں ہے۔
طارق ابوالحسن کہتے ہیں کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایسے جہازوں پر سفر کرنے میں مشکل محسوس کرتی ہے جن میں آٹھ گھنٹے کی پرواز میں تفریح یا دیگر سہولیات فراہم نہ کی جا رہی ہوں۔ لہذٰا وہ دیگر ایئر لائنز کو ترجیح دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں برطانیہ کی برٹش ایئر لائنز نے لگ بھگ 12 سال بعد پاکستان کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بحال کر دیا تھا جس کے بعد لاہور اور اسلام آباد کے لیے براہ راست پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔
ورجن اٹلانٹک ایئر لائنز کی پاکستان میں انٹری
رواں سال پی آئی اے پر پابندی لگنے کے بعد برطانیہ کی ایک نجی ایئر لائن ورجن اٹلانٹک کو پاکستان میں لینڈنگ رائٹس دیے گئے اور انہیں 11 ہفتہ وار پروازیں چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ برٹش ایئر ویز کی پروازیں بھی پاکستان اور برطانیہ کے درمیان آپریٹ کر رہی ہیں۔
مانچسٹر سے براہ راست اسلام آباد یا لاہور کے لیے اب صرف ورجن اٹلانٹک کی پروازیں ہیں جو دو طرفہ کرایے کی مد میں تین لاکھ روپے تک وصول کر رہی ہیں۔
ورجن اٹلانٹک اور برٹش ایئرویز کی آمد کی وجہ سے پی آئی اے کے وہ تمام منافع بخش روٹس جن کے ذریعے وہ اربوں روپے کماتے تھے اس وقت ان پر برٹش ایئرویز اور ورجن اٹلانٹک کے جہاز پروازیں کر رہے ہیں۔
پی آئی اے کی طرف سے اس صورتِ حال پر احتجاج دیکھنے میں آرہے ہیں اور ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے ہاتھ پابندیوں کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں اور دیگر ایئرلائنز کی اجارہ داری قائم کی جارہی ہے۔
عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ مسابقتی تقاضوں کے مطابق اگر بیرون ملک سے آنے والی ایئرلائنز کو پاکستان میں لینڈنگ رائٹس مل رہے ہیں تو پی آئی اے کو بھی اسی نوعیت کی اجازت ملنی چاہیے تھی۔
اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال میں پی آئی اے کا آپریشن بین الاقوامی روٹس پر مشکلات کا شکار ہے۔ برطانیہ اور یورپ سے پی آئی اے کے ریونیو کا 37 فی صد حاصل ہوتا تھا لیکن فی الحال پی آئی اے نقصان اٹھا رہا ہے۔
تاہم پی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ ارشاد غنی کہتے ہیں کہ برطانیہ کی پاکستان کے لیے اوپن سکائی پالیسی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان، برطانیہ کے لیے مزید پروازیں شروع کر سکتا ہے لیکن پاکستان پر پابندی کی وجہ سے سب رکا ہوا ہے۔
ارشاد غنی نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ کے لیے جگہ لینے میں مشکلات کا سامنا تھا کیوں کہ برطانوی حکام کے مطابق ہیتھرو ایئرپورٹ پر جس سلاٹ میں پاکستان وقت لینا چاہ رہا تھا اس میں جہازوں کے رش کی وجہ سے پارکنگ دستیاب نہیں تھی۔
اُن کے بقول اگر پاکستان لندن کے دیگر ایئر پورٹس پر پروازیں شروع کرنا چاہے تو پاکستان کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کو جہازوں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
ورجن اٹلانٹک کو مسافروں کی سہولت کے لیے لایا گیا؟
حکومتِ پاکستان کا مؤقف ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے مسافروں کی سہولت کے لیے نئی ایئرلائنز کو پاکستان میں آنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔
اس بارے میں اعلیٰ حکومتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ورجن اٹلانٹک ایئرلائن کا پاکستان میں آنے کا فیصلہ سول ایوی ایشن کے بجائے ہوا بازی کی وزارت کی سطح پر ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ پی آئی اے پر پابندی کی وجہ سے مسافروں کا رش تھا جن کی سہولت کو مدِنظر رکھتے ہوئے براہ راست پروازیں چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور ورجن اٹلانٹک ایئر لائنز کو اجازت دی گئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ جیسے ہی پی آئی اے کے مشکوک پائلٹس کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور اسے اجازت ملی گئی تو پی آئی اے پھر برطانیہ اور یورپ کے لیے پروازیں شروع کر دے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مسافر پی آئی اے کے ذریعے سفر کرنا چاہتے ہیں، لہذٰا برطانوی اور یورپین حکام کے ساتھ معاملات طے ہوتے ہی پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن ان روٹس پر بحال ہو جائے گا۔
ورجن اٹلانٹک کا مؤقف
وائس آف امریکہ کی طرف سے بھجوائی جانے والی ای میل کے جواب میں ورجن اٹلانٹک پریس آفس کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان یہ پروازیں مسافروں کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ اور سہولت کی وجہ سے چلائی جا رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سروس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تیز رفتار کارگو کی منتقلی ممکن ہو سکے گی۔
اس سوال پر کہ ورجن اٹلانٹک نے اجازت سے پہلے بکنگ کرنا شروع کردی تھی؟
اس پر پریس آفس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہ انڈسٹری کا معمول ہے کہ اجازت نامے ملنے سے پہلے بکنگ شروع کر دی جاتی ہے۔ لیکن اس میں ایک شرط ساتھ لکھی ہوتی ہے کہ یہ بکنگ حکومتی اجازت سے مشروط ہے، ورجن اٹلانٹک نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایئر سروس معاہدے کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان لامحدود فلائنگ رائٹس ہیں اور دونوں ممالک کی ایئر لائنز تمام روٹس پر مقابلہ کر سکتی ہیں۔
پی آئی اے کے اعتراضات کے جواب میں ورجن ایئر لائنز کی وضاحت میں کہا گیا کہ پی آئی اے پر پابندی 'ایاسا' کی طرف سے عائد کی گئی ہے اور اس کا مارکیٹ میں مقابلے یا فلائنگ رائٹس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیر ہوا بازی نے قومی اسمبلی میں کیا کہا تھا؟
اس معاملے میں سب سے اہم اور بنیادی معاملہ وزیر ہوابازی سرور خان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے پائلٹس کے جعلی لائسنس ہونے کا انکشاف کیا تھا اور اس کے بعد پی آئی اے پر یورپی یونین کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے رواں سال 24 جون کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں 860 پائلٹس میں سے 262 پائلٹس کے امتحانات کسی اور نے دیے تھے۔
اس بیان کے بعد یورپی یونین نے چھ ماہ کے لیے پی آئی اے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس بیان کے بعد سپریم کورٹ میں پیش کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق 141 پائلٹس کے لائسنس معطل ہوئے تھے اور 15 کے لائسنس منسوخ کردیے گئے ہیں۔
اس بیان کے آفٹر شاکس کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور پی آئی اے کی طرف سے بھی اس میں اجتجاج کیا جارہا ہے کہ ان کے پائلٹس کو کلیئر نہیں کیا جارہا۔ جس کی وجہ سے ان کی بین الاقوامی پروازیں شروع نہیں ہو پا رہیں۔
یورپی یونین نے بھی حالیہ دنوں میں چھ ماہ کی مدت مکمل ہونے کے باوجود یہ پابندی اٹھانے سے انکار کردیا ہے اور پی آئی اے بدستور برطانیہ اور یورپ کے شہروں کے لیے پرواز نہیں کر سکتی۔