|
سیاسی طور پر منقسم امریکہ میں بھنگ کا استعمال ایسے مسائل میں سے ایک ہے جن پر شاذ و نادر ہی اتفاق رائے ہوتا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 88 فیصد امریکی اسے کم از کم جزوی قانونی حیثیت دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن دو اہم صدارتی امیدواروں میں سے کوئی بھی اس کا فائدہ نہیں اٹھا رہا ہے۔ بھنگ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی اس معاملے پر زیادہ تر امریکیوں سے کہیں پیچھے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس مسئلے پر ایک حالیہ منفرد پالیسی سربراہی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر بھنگ کے حامیوں سے بات کی۔ یہ اجلاس ہر سال واشنگٹن میں اختتام ہفتہ کے ایام میں جاری رہنے والے میوزک فیسٹیول سے قبل ہوتا ہے۔
نیشنل کینابیس پالیسی کی سربراہی کانفرنس کی منتظم کیرولین فلپس کا کہنا تھا کہ ’ایک چیز دونوں امیدواروں میں مشترک ہے کہ بھنگ پر ان کا ٹریک ریکارڈ متضاد اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ہم نے دونوں کی حکومتوں سے وعدے سنے ہیں، جن میں سے کسی نے بھی مکمل طور سے ان وعدوں کو پورا نہیں کیا۔‘
بائیڈن نے 2022 میں محکمہ صحت اور ہیومن سروسز کو یہ ہدایت کی کہ ہیروئن اور ایل ایس ڈی کے مساوی بھنگ کی ایک خطرناک کنٹرول شدہ مادہ کے طور پر درجہ بندی پر نظرثانی کر کے اسے قانونی حیثیت دینے کی طرف اہم قدم اٹھایا جائے۔ تقریباً ایک سال بعد، ادارے نے تجویز کردہ ادویات کے ساتھ ساتھ چرس کو ہلکی درجہ بندی میں منتقل کرنے کی سفارش کی۔ یہ سفارش اب امریکہ کے ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کے پاس ہے، جس کے پاس اس پر عمل درآمد کا اختیار ہے۔
لیکن، فلپس نے کہا، بہت سے حامی چاہتے ہیں کہ اسے ڈرگ انفورسمینت ایڈمنسٹریشن کے کنٹرول شدہ مادہ ایکٹ سے مکمل طور پر نکال دیا جائے، یا اس کی ڈی-شیڈولنگ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ہمیں بہت اچھے اشارے ملے ہیں کہ وہ ڈی شیڈولنگ کی طرف جانے کے لیے آمادہ ہیں۔ لیکن زیادہ تر امکان یہ ہے کہ اس کی ری شیڈولنگ کی جائے گی۔ تاہم، ہم نے ان کے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی جانب کوئی کارروائی نہیں دیکھی۔
ری شیڈولنگ سے بھنگ کو ڈاکٹری نسخے سے ملنے والی دوائیوں کی سطح کا درجہ مل جاتا ہے اور اس تک صارفین کی رسائی کو باضابطہ بناتا ہے۔ جب کہ ڈی شیڈولنگ اسے مکمل طور پر کنٹرول شدہ مادوں کی فہرست سے ہٹا دیتی ہے۔
بائیڈن کی ڈومیسٹک پالیسی کونسل کی ڈائریکٹر نیرا ٹنڈن نے کہا کہ انتظامیہ اس سلسلے میں مزید جاننے کی ضرورت سمجھتی ہے۔ ایسی چیز جو مادے کی ری شیڈولنگ سے اسے سائنسی محققین کے لیے زیادہ آسانی سے دستیاب کرا سکے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’کئی برسوں سے اس مسئلے پر کافی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس پر زیادہ مؤثر طریقے سے تحقیق کر سکیں۔‘
کانگریس میں بھنگ مخالف قانون سازوں کے ایک چھوٹے لیکن اپنا موقف کھل کر پیش کرنے والے گروپ نے بھی بھنگ کی درجہ بندی کو تبدیل کرنے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے سال، ان میں سے 14 نے جو تمام ریپبلکن تھے ایک خط بھیجا جس میں اس کی درجہ بندی کو کم کرنے کی کوشش کی مخالفت کی گئی۔
اپنے خط میں، گروپ نے اس کی لت پڑ جانے کے امکانات اور آج کی بھنگ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘حقائق بتاتے ہیں کہ بھنگ میں یہ صلاحیت کہ اسے غلط استعمال کیا جائے جس سے اس خطرے میں صرف اضافہ ہو رہا ہے۔‘
بھنگ کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ٹرمپ کا موقف مبہم ہے۔ بھنگ کو قانونی حیثیت دینے کی حمایت کرنے والے پالیسی پراجیکٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بطور صدر ’کبھی بھی اس مسئلے کو فعال طور پر نہیں اٹھایا‘۔
فلپس نے کہا، ’دفتر چھوڑنے کے بعد، ہم نے ان کو یہ دونوں چیزیں کہتے سنا ہے کہ جو لوگ غیر قانونی بازار میں منشیات بیچتے ہیں، انہیں جیل میں ڈال دیا جانا چاہیے اور یہاں تک کہ موت کی سزا بھی دی جانی چاہیے۔‘
نیشنل آرگنائزیشن فار دی ریفارم آف ماریجوانا لاز یا NORML کے پولیٹیکل ڈائریکٹر مارگن فاکس نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے بڑی حد تک اس مسئلے سے گریز کیا ہے، جسے NORML کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا "ہم نے ابھی تک ریپبلکن امیدوار سے زیادہ کچھ نہیں سنا ہے" ۔
ذاتی رویہ سیاسی بن جاتا ہے
فاکس نے کہا کہ امیدواروں کے رویے اس سے ہٹ کر ہیں جو بہت سے امریکیوں کے ہیں۔ اور بھنگ کے بارے میں پرانے استعاروں کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں جو اس کے استعمال کرنے والے کو خبط کے شکار کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ 1936 کی فلم ریفر میڈنیس میں دکھایا گیا تھا، یا خوف کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ 1980 کی دہائی کے دور کے منشیات کے استعمال کے خلاف مزاحمت کا تعلیمی پروگرام تھا۔
انہوں نے کہا۔ ’خوش قسمتی سے، انٹرنیٹ کی آمد اور ان مسائل کے بارے میں بہت زیادہ مواصلاتی ترقی کے ساتھ، لوگ نہ صرف یہ دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں کہ بھنگ پر پابندی لگانے اور بھنگ کے صارفین کو مجرم قرار دینے کی پالیسی غیر ضروری ہے، بلکہ وہ اس کے فی الواقع انسانی اثرات کو دیکھنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔
کاروبار سے منسلک ولیم ڈیوس کے لیے، یہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اپنی استری کی ہوئی جینز، مگرمچھ کی کھال کے جوتے، سفید کاؤ بوائے ہیٹ اور "ہاں، میں۔۔" کے ساتھ سوالوں کے جواب دینے کے شوق کے ساتھ، وہ جانتا ہے کہ وہ بھنگ استعمال کرنے والے کسی اسٹیریو ٹائپ شخص کا تصور پیش نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا۔ ’یہ بہت سارے لوگ ہیں جن کے بارے میں آپ کبھی نہیں سوچیں گے‘۔
برسوں تک، عراق کی جنگ لڑنے والے نے پی ٹی ایس ڈی اور افیون کی لت سے بچنے کی کوشش کی۔ وہ ایک دوست کی یہ سفارش کو قبول کرنے سے گریزاں تھا کہ وہ بھنگ استعمال کرے۔ اس نے کہا، ’اس کے ذہن میں 1980 کا ایک اشتہار ابھر آیا تھا جس میں ایک تلے جانے والے انڈے کو دکھایا گیا تھا، اور اس کے ساتھ ایک سخت نصیحت تھی: " منشیات سے آپ کے دماغ کی یہ حالت ہوتی ہے۔
ڈیوس نے کہا جس طرح انڈے کے ساتھ گرم فرائی پین ہوتا ہے، میں نے سوچا، نہیں، میں منشیات آزمانا نہیں چاہتا۔ میں اپنے دماغ کو انڈے کی طرح تلنے والا ہوں۔‘
ڈیوس کا کہنا ہے کہ اس کی بجائے، بھنگ میں ایک جزو کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ وہ دن کے وقت اپنی بے چینی کو دور کرنے کے لیے بھنگ میں پایا جایا جانے والا جز سی بی ڈی استعمال کرتے ہیں، جو دماغ کے افعال پر منفی اثر نہیں ڈالتا، اور وہ اسے کام کے بعد آرام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
چھ سال پہلے، انہوں نے ایک کمپنی، ’یوفوریا ایٹس‘ کی بنیاد رکھی، جو تیکھی چٹنی اور باربی کیو میں استعمال ہونے والی چٹنی فروخت کرتی ہے۔
ڈیوس، ہیوسٹن کے رہنے والے ہیں، جو اب ریپبلکن پارٹی کے گڑھ لوزیانا میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کاروباری وجوہات کی بنا پر اسے قانونی حیثیت دینے کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا، ’جب تک ہر جگہ اس پر عائد قانونی رکاوٹیں ختم نہیں کی جائیں گی اور اسے ہر جگہ قانونی قرار نہیں دیا جائے گا، ہمیشہ ایسے لوگ ہچکچاتے رہیں گے جو اپنے سرمائے کو منافع بخش کاروبار میں ڈالنے سے گھبراتے ہیں، جس سے وہ دیکھتے ہیں کہ اس کاروبار میں پیسہ کمانے سے کمیونٹی پر اثر پڑتا ہے۔‘
’میرا ووٹ بھنگ کے قوانین کو متاثر کرتا ہے۔‘
رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ بھنگ کی سب سے زیادہ حمایت نوجوان امریکی کرتے ہیں۔
کمیونٹی آرگنائزر سکاٹی سمارٹ نے ایک نوجوان ترقی پسند کے طور پر وائس آف امریکہ سے اپنی پوزیشن کے بارے میں بات کی، جس کا اظہار ان کی کائی کے رنگ کی ٹی شرٹ پر لکھی ہوئی تحریر سے ہو رہا تھا۔ اس میں لکھا تھا، میرا ووٹ بھنگ کے قوانین پر اثرات ڈالتا ہے۔
اسمارٹ نیو جارجیا پروجیکٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور بھنگ کی حامی تعلیم اور بیداری کی تحریک کے ساتھ منسلک ہیں جسے We Want All the Smoke کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں بھنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نوجوانوں کو توجہ دینے پر اکساتا ہے اور انہیں پرجوش بناتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک اہم چیز جس پر نوجوان ووٹروں کی نظر ہے، وہ یہ ہے کہ آیا بائیڈن انتظامیہ بھنگ کی درجہ بندی بدلنے کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ، ’توقع ہے کہ یہ انتخابات سے پہلے ہو گا تاکہ ہم واقعتاً دیکھ سکیں۔ ہمیں کچھ حاصل ہونا چاہیے، نہ کہ ہمیں امید دلانے والی انتخابی تقریریں کی جائیں۔
مایا ٹیٹم، نیشنل گراس روٹ گروپ اسٹوڈنٹس فار سینسبل ڈرگ پالیسی کی سابق چیئر پرسن ہیں۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ امیدواروں کا عمل ان کے الفاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں دونوں میں سے کوئی بھی واضح فاتح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے آس پاس جو بہت سے نوجوان ووٹر ہیں، وہ بائیڈن کو اس کے لیے جوابدہ ٹھہرانا چاہتے ہیں۔ جو انہوں نے بھنگ کے بارے میں کہا تھا۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ٹرمپ بھنگ کے حوالے بہت کچھ پیش کش کر رہے ہیں
فاکس کا کہنا تھا کہ NORML سیاسی امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران بھنگ کے بارے میں زیادہ کھلا اظہار دیکھنا چاہے گا۔
انہوں نے کہا، ’کوئی بھی امیدوار جو درحقیقت آگے بڑھنا چاہتا ہے، چاہے وہ صدارتی انتخاب ہو یا کانگریس کا ہو یا ریاستی قانون سازوں کا یا پھر مقامی قانون سازوں کا، اگر وہ اس مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔
فورم