پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان منگل کو ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے کے دوران دونوں رہنماؤں نے اسلام آباد اور بیجنگ کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
چین کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماؤں میں ہونے والی گفتگو میں صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ اس وقت دنیا میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ان نئے حالات میں پاکستان اور چین کو مزید مضبوطی کے ساتھ مل کر اسٹرٹیجک تعاون کو آگے بڑھانا ہے۔
چین کے صدر شی جنگ پنگ نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے فون پر گفتگو کی ہے جب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے بظاہر سست روی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے حکام اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے عمران خان سے گفتگو میں کہا کہ چین اور پاکستان مل کر کرونا وائرس سے نمٹنے اور سی پیک کی اعلیٰ معیار کے مطابق تعمیر جاری رکھیں گے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کو انسدادِ دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سی پیک سے متعلق امور کے سربراہ خالد منصور نے حال ہی ایک بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر سی پیک منصوبوں کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی خالد منصور نے کراچی کے ایک تعلیمی ادارے میں خطاب میں کہا تھا کہ خطے میں ابھرتی ہوئی جیو اسٹرٹیجک صورتِ حال کے پیشِ نظر امریکہ بھارت کی مدد سے سی پیک کی مخالفت میں اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ اس بات کے مدنظر کو پاکستان کا ایک موقف اختیار کرنا ہو گا کہ اس مخالفت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ مغربی ممالک سمجھتے ہیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے ذریعے چین دنیا کے کئی ممالک میں اپنے اثر و سوخ میں اضافہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چین کی طرف سے ان منصوبوں کے دیے جانے والے قرضے ان ممالک کے لیے بوجھ ثابت ہوں گے۔
خالد منصور کا کہنا ہے کہ چین نے اس تاثر کو کسی حد تک دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے بھی نے اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے میں حکام سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ امریکہ کے لیے سی پیک کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع موجود ہیں۔
امریکہ کے حکام کی طرف سے سی پیک کی براہِ راست مخالفت کبھی سامنے نہیں آئی، البتہ ان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ سی پیک کے منصوبے پاکستان کی معیشت پر بوجھ ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اس تاثر کو رد کرتا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے اور ایسے بیانات کسی طور مناسب نہیں جو اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کسی غلط فہمی کا باعث بنیں۔
پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایک مشکل اقتصادی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ ان حالات میں ایسے بیانات کسی طور سود مند نہیں ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٖغلط فہمی ہو۔
حفیظ پاشا نے مزید کہا کہ پاکستان کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں تاکہ آئی ایم ایف پروگرام چلے اور اس کی شرائط سخت نہ ہوں۔ دوسری جانب ہمیں چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھنا ہے۔ تاکہ بنیادی ڈھانچے اور خصوصی اقتصادی زونز قائم ہو سکیں جہاں چین کےساتھ ساتھ دیگر سرمایہ کار بھی آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے سی پیک کے بارے میں تحفظات موجود رہیں گے۔ کیوں کہ اس منصوبے کے ذریعے چین کا خطے میں اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔ اسلام آباد کو واشنگٹن کو باور کرانا چاہیے کہ یہ منصوبے پاکستان کے اقتصادی اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے کوئی اسٹریٹجک عزائم نہیں ہیں۔
ان کے بقول امریکہ کے ساتھ پاکستان کے ماضی میں گہرے روابط رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر امریکہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کے لیے امریکہ کے ساتھ فعال تعلقات برقرار رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کا کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے اور شاہراؤں کی تعمیر اور توانائی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ اب شاید مخالفت کی اتنی اہمیت نہ ہو۔
اس حوالے سے امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری تناؤ اور مسابقت کی وجہ سے پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ایک چیلنج ہے۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے چین کی دوستی ایک اسٹرٹیجک ترجیح ہے لیکن اس کے ساتھ ایک عالمی طاقت ہونے کے ناطے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا بھی اسلام آباد کے مفاد میں ہے۔
ملیحہ لودھی کے مطابق امریکہ کے حکام کی طرف سے سی-پیک پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت کے لیے بوجھ ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے حکام اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ یہ منصوبے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔
ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ پاکستان کے لیے چین اور امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی توقعات کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان جاری تناؤ کی فضا سے اپنے آپ کو الگ بھی رکھنا ضروری ہے۔ لیکن ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ ایک طرف چین پاکستان کی اسٹرٹیجک ترجیح ہے تو دوسری جانب امریکہ کی اسٹریٹجک ترجیح بھارت ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان اچھے تعلقات کے مواقع موجود ہیں۔
ان کے بقول پاکستان اور امریکہ کے روایتی طور پر قریبی تعلقات رہے ہیں، اگرچہ ان میں اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ اب دونوں ممالک ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں ان کے لیے اپنے باہمی تعلقات کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔