رسائی کے لنکس

گوادر شہر کے گرد باڑ کی تنصیب پر مقامی آبادی کے تحفظات


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گزشتہ چند روز سے شہر کے اطراف باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے جس پر مقامی افراد تشویش میں مبتلا ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ شہریوں کے تحفظ اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے باڑ لگائی جا رہی ہے۔

شہر کے اطراف باڑ لگانے کے کام کے آغاز کے ساتھ مقامی سطح پر چہ مگوئیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ گوادر کے رہائشی سوال اٹھا رہے ہیں کہ شہر میں پہلے سے موجود سخت سیکیورٹی کے بعد بھی باڑ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

گوادر کے رہائشی جاوید مولا بخش طالب علم ہیں۔ ان کے مطابق گوادر شہر میں باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان سے الگ کسی اور ملک کے شہری بننے جا رہے ہیں۔

جاوید کے بقول گوادر میں باڑ لگانے کے عمل سے سیاسی و سماجی حلقے اور عام شہری بھی ناخوش ہیں اور انتہائی غم و غصے کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔

جاوید کہتے ہیں کہ گوادر کے عوام روزِ اوّل سے ہی شہر میں جاری ترقیاتی عمل سے متعلق تشویش رکھتے ہیں۔

اُن کے بقول مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں نے عوام کو گوادر کی ترقی اور اس کے ذریعے مقامی لوگوں کو پہنچنے والے فوائد کے بارے میں اندھیرے میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ گوادر کے عوام کا باڑ لگتی دیکھ کر پریشان ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

جاوید سمجھتے ہیں کہ گوادر شہر کو باڑ لگا کر 'محفوظ' کرنے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو پہلے ہی علم تھا۔ مگر کسی نے اس کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ گوادر میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔

باڑ لگانے پر بلوچستان میں قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے ردِ عمل دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ آٹھ سال سے سوشل میڈیا پر 'مقبوضہ بلوچستان' کا لفظ استعمال کرنے سے گریزاں تھے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ یہ استعمال کرنا پڑے گا۔

اختر مینگل نے کہا ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کا مطلب ہے کہ مقامی لوگ گوادر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ گوادر میں یہ کس قسم کی ترقی ہے جہاں مقامی لوگوں کو ان کی اپنی سرزمین میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے؟

خیال رہے کہ گہرے پانی کے ساحل کی وجہ سے مشہور جزیرہ نما گوادر میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت بندرگاہ بنائی گئی ہے جس کے ذریعے چین، پاکستان کے راستے وسطی ایشیا، یورپ اور دیگر ممالک تک رسائی کا خواہاں ہے۔

اس بندرگاہ کے ذریعے افغانستان کی جانب سے دیگر ممالک سے درآمد کیا جانے والا تجارتی سامان 'افغان ٹرانزٹ ٹریڈ' کے تحت براستہ پاکستان، افغانستان بھجوایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان 'لینڈ لاک' ملک ہے جس کے چاروں طرف کوئی سمندر نہیں لگتا۔

گوادر کے مقامی باشندوں کو خطرہ ہے کہ شہر کے اطراف باڑ سے دیہی آبادی شہر سے کٹ جائے گی جس سے ان کا روزگار بھی وابستہ ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کی ایک اور قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی گوادر میں باڑ لگانے کے حوالے سے پیر کو اختر مینگل سے لاہور میں ملاقات کی۔

گوادار میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
گوادار میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باڑ لگانے کے عمل کو بلوچ قوم کا سیاسی، معاشی اور سماجی استحصال قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھانے کا اعادہ کیا ہے۔

ادھر رُکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی نے بھی باڑ لگانے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے کام رکوانے کے لیے حکومتی و عسکری حکام سے رُجوع کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت گوادر کو اقتصادی حوالے سے 'بزنس فرینڈلی' بنائے نہ کہ 'سیکیورٹی زون'۔

ادھر اتوار کو ڈپٹی کمشنر گوادر میجر ریٹائرڈ عبدالکبیرخان نے باڑ کے حوالے سے شہریوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک کھلی کچہری کا بھی اہتمام کیا۔

یاد رہے کہ گوادر شہر کے اطراف لگائی جانے والی باڑ کے سوشل میڈیا پر بھی چرچے ہیں اور 'اسٹاپ فینسنگ' کے نام سے ہیش ٹیگ بھی چلتا رہا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اس کو شہر کے ماسٹر پلان کا حصہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیف سٹی منصوبے کا حصہ ہے جس کے لیے سیکیورٹی اقدامات کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ گوادر کے لوگ پرامن اور ترقی پسند ہیں گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت جدید اور ترقی کرنے والے گوادر میں سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے باڑ لگائی جا رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جائیں گے جب کہ فینسنگ کے باعث متاثر ہونے والی آبادی کے لیے مخصوص مقامات پر انٹری پوائنٹس رکھے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG