بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ معمول کے مطابق ہمسایوں والے تعلقات چاہتا ہے تاہم اس کے لیے دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول بنانے کی ذمے داری بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔
نریندر مودی نے چین سے سرحدی تنازع کے بارے میں کہا کہ بھارت اپنی خود مختاری اور وقار کے تحفظ کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چین سے دو طرفہ تعلقات کے لیے سرحدی علاقوں میں امن و اطمینان ضروری ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے جاپانی اخبار’نکی ایشیا‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ہمسایوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے علاوہ یوکرین جنگ اور رواں برس بھارت میں منعقد ہونے والے جی ٹوئنٹی اجلاس کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا۔
رواں ماہ بھارتی ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ پوری دنیا کے لیے چیلنج ہے اور اسے سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اس بیان پر بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنگر نے اپنے ردِ عمل میں بلاول بھٹو زرداری کو دہشت گردوں کا ترجمان قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ, تنازع کا باعث رہا ہے۔ بھارت پاکستان دونوں ہی ایک دوسرے پر دراندازی اور اپنے خلاف دہشت گردی کی معاونت کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔
اسی طرح بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ دو برسوں سے لداخ میں سرحدی تنازع جاری ہے جس کے نتیجے میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوچکا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی
بھارت کے وزیرِ اعظم مودی کا ہمسایوں سے تعلقات کے بارے میں بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وہ ترقی یافتہ ممالک کے جی سیون گروپ میں شرکت کے لیے جاپان کے شہر ہیروشیما میں موجود ہیں۔
اگرچہ بھارت اس گروپ کا رکن نہیں ہے تاہم اجلاس میں نریندر مودی، یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی، برازیل، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور یورپی یونین کے نمائندے بھی شریک ہورہے ہیں۔
جی سیون کے مطابق غیر رکن ممالک کو دعوت دینے کا مقصد روس کے گرد سفارتی و معاشی طور پر گھیرا تنگ کرنے سمیت دیگر عالمی چیلنجز کے مقابلے کے لئے تعلقات کو مستحکم کرنا ہے۔
انٹرویو میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازع میں ثالثی کے سوال پر نریندر مودی نے کہا کہ اس معاملے پر بھارت کا موقف واضح اور غیر متزلزل ہے۔
انہوں نے کہا:’’بھارت امن کا طرف دار ہے اور اسی جانب رہے گا۔ ہم ان کی مدد کے لیے پُرعزم ہیں جنھیں بالخصوص خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ایندھن اور کھاد جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمارے روس اور یوکرین دونوں سے رابطے بحال ہیں۔ ہمارے حالات ہی تعاون کی نوعیت کا تعین کریں گے، یہ تنازع نہیں۔‘‘
جی سیون سے جی ٹوئنٹی
نریندر مودی نے نکی ایشیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جی سیون اجلاس میں وہ توانائی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور طلب و رسد جیسے عالمی چیلنجز پر بھی بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ان چیلنجز کے مقابلے کے لیے ایک قابلِ اعتبار شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے اور جی سیون اجلاس میں بھی اس کی گونج سنائی دے گی۔
وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ جی سیون کے وسیع تر گروپ جی ٹوئنٹی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
گزشتہ برس انڈونیشیا کے بعد بھارت کو جی ٹوئنٹی گروپ کی سربراہی ملی تھی اور رواں برس بھارت اس گروپ کے سربراہ اجلاس کی میزبانی بھی کرے گا۔