پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت بشمول وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف لندن میں ہیں جہاں پیر کو پارٹی کی سیاسی حکمتِ عملی پر مشاورت کی گئی۔
مشاورتی عمل کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ اس بات پر غور کیا گیا کہ پارٹی کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے اور آئندہ انتخابات میں کیا کرنا ہے اس بارے میں بات چیت کی گئی۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ ’مائنس نواز شریف‘ فارمولے پر بھی بات کی گئی تو شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف ہی پارٹی کے سربراہ ہیں اور اُن ہی کی مشاورت سے پارٹی چلائی جائے گی۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف بھی اتوار کو سعودی عرب سے لندن پہنچے تھے۔
نواز شریف کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے دائر ریفرنسز کی ان دنوں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سماعت جاری ہے اور ان کی عدم پیشی پر عدالت اُن کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر چکی ہے۔
پاناما لیکس سے متعلق مقدمات میں عدالت عظمٰی کی طرف سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں ایک چیلنج پارٹی کو متحد رکھنے کا بھی ہے۔
نواز شریف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ اُن کو نا اہل قرار دینے کے فیصلے کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
’’جب اس طرح کے حالات ملک کے اندر پیدا کر دیے جائیں، کہاں کا استحکام، کہاں کی ترقی اور کہاں کی خوشحالی۔‘‘
اتوار کو لندن پہنچنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ سے نکالے جانے سے ملک کی معیشت اور اسٹاک مارکیٹ پر برا اثر پڑا ہے۔
اس تمام صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت مشاورت کرے گی کہ پارٹی معاملات اور قیادت کو درپیش قانونی چیلنجوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔
لندن پہنچے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے جب یہ پوچھا گیا کہ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ ان معاملات کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’’حالات سب ٹھیک ہوں گے۔۔۔۔ ہم سب کو اکٹھے رہ کر کام کرنا ہے۔‘‘
ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان فاصلوں سے متعلق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان آئے تھے تو ’’سب (سویلین اور عسکری) قیادت ایک میز پر بیٹھی ہوئی تھی، کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔۔۔۔ یہ صرف ٹی وی اور اخباروں میں نظر آتا ہے، ملک ایک ہے اور سب مل کر اُس ملک کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘
سیاسی اُمور کے تجزیہ کار خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لندن میں مشاورت کا محور مسلم لیگ (ن) کو درپیش سیاسی اور قانونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی پر غور کرنا ہی ہے۔
’’سیاسی میدان میں حکمتِ عملی یہ ہے کہ ایک تو مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں نہ پڑیں اور اُن کا عوام کے ساتھ رابطہ منقطع نہ ہو۔‘‘
گزشتہ ہفتے نواز شریف کی لندن سے روانگی کے بعد یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ سعودی عرب میں عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچیں گے۔
لیکن تقریباً ایک ہفتہ سعودی عرب میں گزارنے کے بعد نواز شریف لندن واپس پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ اُن کی برطانیہ میں زیرِ علاج اہلیہ کلثوم نواز کی طبیعت کی خرابی بتائی جارہی ہے۔
لیکن ساتھ ہی یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران نواز شریف کی بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی ہیں تاکہ مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو مشکلات سے نکالا جائے۔
اس بارے میں جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات اُن کے علم میں نہیں ہے۔
دریں اثنا وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر اپنی ایک تحریر میں کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ جمہوریت اور آمریت کے گرد گھوم رہی ہے۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ بعض خفیہ ہاتھ ایک بار پھر جمہوری عمل میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں۔
احسن اقبال نے ملک میں جمہوریت اور آمریت کے ادوار کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سن 50 میں جمہویت رہی تو 60 میں مارشل لا اور اسی طرح 70 کی دہائی میں جمہوریت اور 80 کی دہائی میں پھر سے فوجی حکومت۔
اُنھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 90 کی دہائی میں ایک بار پھر ملک میں جمہوریت آئی اور 2000 میں مارشل لا کا نفاذ ہوا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ 2010 میں جمہوریت آئی لیکن اب 2020ء میں کیا ہو گا، اس بارے میں اُنھوں نے اپنے تحریری موازنے کا اختتام سوالیہ نشانات پر کیا ہے۔
تجزیہ کار خادم حسین کہتے ہیں کہ اس مضمون سے اس بات کی غمازی ہوتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔