رسائی کے لنکس

پی این ایس مہران: دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ابھی جاری ہے: ترجمان بحریہ


پی این ایس مہران: دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ابھی جاری ہے: ترجمان بحریہ
پی این ایس مہران: دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ابھی جاری ہے: ترجمان بحریہ

بحریہ کے کمانڈوز اور سکیورٹی اہل کاروں نے دہشت گردوں کے خلاف ’گھیرا ڈالا ہوا ہے‘ اور اُن کے پکڑے یا مارے جانے کی صورت میں’ بہت جلد کارروائی مکمل ہوگی‘

پاکستان بحریہ کے ڈائریکٹر پبلک رلیشنز، عرفان الحق کا کہنا ہے کہ حملہ آور دہشت گرد ابھی تک پی این ایس مہران کےبیس کے اندر ہیں، جن کے گِرد بحریہ کے کمانڈوز اور سکیورٹی اہل کاروں نے ’گھیرا ڈالا ہوا ہے‘ اور توقع کا اظہار کیا کہ اُن کے پکڑے یا مارے جانے کی صورت میں بہت جلد کارروائی مکمل ہوگی۔

اتوار کو رات گئے’وائس آف امریکہ‘ واشنگٹن سے فون پر گفتگو ٕ میں، اُنھوں نے کہا کہ ابھی یہ کہنا ’قبل از وقت ہوگا‘ کہ اِن دہشت گردوں کا تعلق کس تنظیم یا گروہ سے ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جس وقت مشکوک افراد بیس میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے، سکیورٹی اسٹاف نے اُنھیں چیلنج کیا اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ وہ اِسے انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں سمجھتے۔

ایک سوال کے جواب میں بحریہ کے ترجمان نے بتایا کہ بحریہ کی ریپڈ ایکشن فورس کی مدد کے لیے نیوی کے کمانڈوز اور پاک میرین کے دستے فوری طور پر وہاں پہنچ گئے تھے۔

اِس سوال پر کہ کتنے دہشت گرد مارے یا پکڑے گئے ہیں، عرفان الحق نے کہا کہ فی الوقت ایسی کوئی اطلاع اُن تک نہیں پہنچی۔

ہلاکتوں کے بارے میں سوال پر، اُنھوں نے بتایا کہ بحریہ کے چار اہل کار ہلاک ہوئے ہیں جِن میں سے ایک کا نام لیفٹیننٹ یاسر تھا جب کہ تین فائر مین تھے۔

یہ معلوم کرنے پر کہ کیا حملہ آور وں کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے ہے، اُنھوں نے کہا کہ فوری طور پر یہ بتانا ممکن نہ ہوگا۔ لیکن، اُن کے بقول، جونہی آپریشن مکمل ہوتا ہے، بحریہ کے علاوہ دوسرے متعلقہ خفیہ ادارے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کریں گے، جس کے نتیجے میں کوئی حتمی بات سامنے آنے کی توقع ہے۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر معید یوسف اور سکیورٹی اسٹریٹفور سے وابستہ تجزیہ کار کامران بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی اہلیت اور کارکردگی پر ایک اور بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اِس سے ملک کے اندر اور بیرون ممالک سے بھی سکیورٹی اداروں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ معید یوسف کے بقول اب یہ سوال شدت اختیار کر سکتا ہے کہ جب پاکستان کے عسکری ادارے مرکزی تنصیبات کا دفاع نہیں کر سکتے تو جوہری اثاثوں کے محفوظ ہونے کے دعووں پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے۔

کامران بخاری کا کہنا تھا کہ پی این ایس مہران پر حملے سے واضح ہوتا ہے کہ سکیورٹی اداروں کے اندر عسکریت پسندوں کے لیے حاضر سروس یا رئٹائرڈ عہدے داروں میں کسی سطح پر ہمدردی کا عنصر موجود ہے۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ رحمٰٰن ملک نے ایسے کسی تاثر کو رد کیا ہے۔ کراچی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےانھوں نے کہا کہ ملکی فوج اور سکیورٹی کے ادارے مستعد ہیں اور ان کی صلاحیت پر سوالات نہیں اٹھائے جاسکتے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پوری قوم کو چاہیئے کہ عسکریت پسند عناصر اور ان کے لیے ہمدردی رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں اور مشکل کے اس وقت میں اپنے اداروں کا بھرپور ساتھ دیں۔

وزیر داخلہ نے کراچی حملوں کو طالبان اور القاعدہ کی کارروائی قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG