سندھ کی پولیس نے ہندو لڑکے کو زد و کوب اور مجبور کر کے مذہبی ہستیوں کو مغلظات بکنے پر مجبور کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔
چند روز قبل ضلع تھر پارکر میں عبد السلام نامی شخص نے مٹھی کے رہائشی لڑکے مکیش بھیل کو گریبان سے پکڑا اور اسے مجبور کیا کہ وہ مسلمانوں کا مذہبی نعرہ لگائے اور اپنے مذہب یعنی ہندومت کی مقدس ہستیوں کو بھی گالیاں دے۔
پولیس کے مطابق اس دوران ملزم موبائل فون سے ویڈیو بھی بنا رہا تھا۔ اس نے بعد ازاں یہ ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپ لوڈ بھی کی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عبد السلام نے اس لڑکے کو بھی گالیاں دیں اور زدوکوب کیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سماجی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ سامنے آیا۔ جس کے بعد سندھ پولیس نے ضلع بدین کے علاقے کھوسکی سے اسے گرفتار کرلیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے انسانی حقوق ویر جی کولہی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جا رہی ہیں۔ پولیس نے ملزم کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ جب کہ لڑکے کے والدین کی جانب سے الگ کیس دائر کرایا جائے گا۔
ملزم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھتا ہے۔ جب کہ گھر والوں سے لڑ کر تھر پار کر آیا تھا۔
انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ اس شخص کا تعلق تھرکول پاور پلانٹ سے ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن اس واقعے کو صوبے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات جن میں اقلیتوں یا ان کے عقائد کو نشانہ بنایا جائے سندھ میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
بدین سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکر مکیش میگھواڑ کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتہا پسندی نے عام لوگوں کے ذہنوں میں بھی نفرت ڈال دی ہے۔
مکیش میگھواڑ نے بتایا کہ نفرت انگیز روئیوں سے کئی بار ان کا بھی سابقہ پڑ چکا ہے۔ اور اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو نفرت پر مبنی لٹریچر اور اسکولوں کے نصاب میں ہندو مذہب اور اس کے ماننے والوں سے نفرت پر مبنی مضامین کا خاتمہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ریاستی سطح پر اقدمات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے اور خاص طور پر ٹی وی ڈراموں سے لوگوں میں آگہی پھیلائی جائے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام لازم ہے۔ بقائے باہمی اور مذہبی ہم آہنگی ہی سے امن ممکن ہے۔ جب کہ اشتعال انگیز اور توہین آمیز روئیے معاشرے کے امن کے لیے زہر قاتل ہیں۔
واضح رہے کہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 35 لاکھ 95 ہزار سے زائد ہے جن میں سے سندھ میں 33 لاکھ سے زائد مقیم ہیں۔
ان میں سے اکثریت ضلع تھرپارکر، عمر کوٹ، میرپور خاص، سانگھڑ، جیکب آباد، سکھر اور دیگر اضلاع میں مقیم ہیں۔
انسانی حقوق پاکستان کی سال 2020 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کا افسوسناک سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہا۔ جب کہ مذہب کی تضحیک سے متعلق تشدد میں اضافہ ہوا اور حکومت نے امتیازی قانونی کارروائیوں کے حق میں صفائیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ حکومت اقلیتوں کے تحفظ اور انہیں آئین پاکستان میں دیے گئے حقوق دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے اور اس میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جائے گی۔