پاکستان کے صوبے سندھ کی حکومت نے ہندو مذہب کی مقدس کتاب 'بھگود گیتا' کی کاپیاں چھاپنے کے لیے حالیہ سالانہ مالیاتی بجٹ میں فنڈز مختص کیے ہیں۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی بھی اقلیت برادری کی مقدس کتاب سرکاری خرچے پر چھاپی جا رہی ہے۔ ملک میں بسنے والی ہندو برادری کی تنظیموں اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے والی تنظیموں نے اس اقدام کو سراہا ہے۔
سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 15 جون کو صوبائی اسمبلی میں رواں مالی سال کا 14 کھرب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کے پاس دستیاب بجٹ دستاویز کے مطابق بجٹ میں 'بھگود گیتا' کی دس ہزار کاپیاں چھاپنے کے لیے دس لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
ان کتابون کو چھپائی کے بعد صوبے بھر کے مندروں میں مفت تقسیم کیا جائے گا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے معاونِ خصوصی برائے انسانی حقوق ویر جی کولہی نے حکومتی سطح پر بھگود گیتا چھاپنے کے لیے فنڈز مختص کرنے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بالخصوص پیپلز پارٹی کی قیادت شروع سے ہی ملک میں آباد مذہبی اقلیتی برادریوں کی فلاح و بہبود پر یقین رکھتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ویرجی کولہی نے کہا کہ بهگود گیتا چھاپنے کے لیے فنڈز مختص کرنے کے عمل سے ہندو کمیونٹی یہ محسوس کر رہی ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ انہیں سرکاری سطح پر اپنا مانا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت ہر سال لگ بھگ پونے دو کروڑ روپے کی خطیر رقم صوبے میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کرتی ہے۔ جس میں ایک کروڑ روپے مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جاتے ہیں جب کہ پچھتر یا اسی لاکھ روپے کی اقلیتی برادریوں کے لیے مختلف اسکیمز، جیسے دیوالی یا ہولی کے موقع پر برادری کے ضرورت مند افراد میں رقوم کی تقسیم، شادی اور تعلیم میں مالی امداد وغیرہ شامل ہے۔
بهگود گیتا
بهگود گیتا، جسے ہندو کمیونٹی شری مد بهگود گیتا بھی کہتی ہے، ہندو مذہب کی سب سے مقدس کتاب ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ہندو کمیونٹی کے مذہبی اسکالر ہارون سرب دیال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سات سو اشلوک پر مشتمل یہ کتاب مہا بھارت کا حصہ ہے، جس کی تعلیمات ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لیے نزدیک انتہائی مقدس ہے۔
ان کے بقول، ''یہ دور قدیم میں بگھوان کرشن اور ایک شہزادے ارجن کے درمیان مکالموں کی شکل میں ہے جو معاشرے میں پیار و محبت اور امن و آشتی کا سبق دیتی ہے۔''
بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بہتر قدم
پاکستان بھر کے مختلف اقلیتی رہنماؤں نے سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر بھگود گیتا چھاپنے کے عمل کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل ملک میں آباد مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ہم آہنگی، اعتدال پسند اور روادار نسل کی تشکیل میں معاون ثابت ہو گا۔
ہندو کمیونٹی کی تنظیم آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے سربراہ ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ اس وقت نفرت اور تشدد کے ماحول میں سندھ حکومت کا بگھود گیتا کی کاپیاں حکومتی سطح پر چھاپنے کا عمل بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بہترین قدم ہے۔
ان کے بقول، '' اس طرح پیار و محبت کا پیغام کسی بھی جانب سے آئے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے جب کہ دیگر صوبے بھی اس عمل کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کی تمام اقلیتی مذاہب کی کتابیں چھاپیں۔''
ہارون سرب دیال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آباد ہندو کمیونٹی سنسکرت اور ہندی پڑھ نہیں پاتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھگود گیتا اور رامائن کو اردو میں متعارف کیا جائے تاکہ ہندو برادری کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی تقابلی دینی علوم یا (Comparative Religious Studies) کے لیے اس سے استفادہ کرسکیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے نارائن پورہ کے رہائشی راکیش کمار کہتے ہیں کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے بهگود گیتا چھاپنے کے لیے بجٹ میں فنڈز مختص کرنے کے عمل کو سراہا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ہندو مذہب کی مقدس کتاب ایسے وقت میں چھاپی جا رہی ہے جب 'پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی طرف سے ان کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور عدم تحفظ سے نمٹنے میں حکام کے ناکافی اور غیر تسلی بخش اقدامات ہونے کا شکوہ کیا جاتا رہا ہے۔
ان کے بقول، ''سندھ حکومت کے اس عمل سے نہ صرف مقامی سطح پر ہندو کمیونٹی میں اعتماد کی فضا بحال ہوگی بلکہ عالمی سطح پر بھی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔''
'صوبے میں دیگر اقلیتوں کی مذہبی کتابیں بھی چھاپی جائیں'
بین المذاہب کمیشن برائے امن و ہم آہنگی نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ علامہ احسان صدیقی سندھ حکومت کے اس عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ صوبے میں آباد دیگر اقلیتوں جیسے مسیحی، سکھ، پارسی و دیگر کی مذہبی کتابیں بھی چھاپی جائیں تاکہ مذہبی اقلیتوں کے درمیان پائے جانے والے احساس محرومی کو کم کیا جا سکے۔
کراچی کے ایک بڑے چرچ کے پادری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی دیہی سندھ میں ہندو کمیونٹی کے ووٹ بینک کی وجہ سے ترقیاتی اور دیگر منصوبوں میں صرف ہندو کمیونٹی کو ہی شامل رکھتی ہے۔
انہوں نے نام شائع نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ کراچی میں آبادی کے لحاظ سے مسیحی بڑی اقلیتی کمیونٹی ہے مگر انہیں صوبائی وزارتوں اور دیگر امور میں مکمل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ''جولائی 2017 میں کراچی کے علاقے محمود آباد، اختر کالونی اور اعظم بستی میں صوبائی اسمبلی کے اس وقت کے حلقے پی ایس 114 میں سعید غنی کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ صوبائی کابینہ میں ایک مسیحی وزیر کو شامل کیا جائے گا مگر یہ وعدہ اب تک وفا نہ ہوسکا۔''
خیال رہے کہ سندھ حکومت میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد وزرا اور معاونین خصوصی کے عہدوں پر کام کر رہے ہیں جن میں ویرجی کولہی کے ساتھ ساتھ ہری رام کشوری لال، مکیش کمار چاؤلہ، پونچو بھیل اور ڈاکٹر کھٹومل شامل ہیں۔