پنجاب پولیس نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی لاہور میں رہائش گاہ زمان پارک میں کارروائی کرتے ہوئے تمام رکاوٹیں اور کیمپ ختم کرا دیے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے دورن پولیس پر حملوں میں ملوث 61 کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمان کے مطا بق پولیس نے ہفتے کی دوپہر 12 بجے زمان پارک کی جانب ایسے وقت میں پیش قدمی کی، جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان توشہ خانہ کیس میں پیشی کے لیے اسلام آباد روانہ ہو گئے تھے۔ آپریشن کے دوران پولیس نے کرین کی مدد سے عمران خان کی رہائش گاہ کا مرکزی دروازہ توڑا اور وہ گھر میں داخل ہوئی۔
اس موقع پر زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جب کہ پولیس نے کارکنان پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
عمران خان نے ایک بیان میں کہا کہ پنجاب پولیس نے ان کے گھر پر حملہ کیا جہاں بشریٰ بیگم اکیلی تھیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کس قانون کے تحت کیا جا رہا ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سب 'لندن پلان' کا حصہ ہے جس میں نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے وعدے کیے گئے تھے۔
وفاقی وزیرِاطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پولیس عمران خان کے گھر سرچ وارنٹ لے کر گئی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس پر عمران خان کے گھر سے فائرنگ کی گئی۔
پنجاب حکومت کا مؤقف
نگران وزیرِ اطلاعات پنجاب عامر میر کا کہنا ہے کہ پولیس نے زمان پارک میں بنائے گئے نو گو ایریاز کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زمان پارک میں بنکرز بنائے گئے تھے اور وہاں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم بھی پھینکے تھے۔
عامر میر کے بقول پولیس پر حملوں میں ملوث پرتشدد عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ زمان پارک میں ریاست کی عمل داری قائم کر دی گئی ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ زمان پارک میں موجود شرپسندوں کو گرفتار کرنے کے لیے آج کارروائی کی گئی جس میں 61 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ لوگ لاہور کے مختلف علاقوں سے یہاں آتے تھے اور ان کی کیمروں کی مدد سے شناخت کر کے گرفتار کیا گیا ہے۔ کسی بھی بے گناہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
''آج ہم نے عمران خان کے گھر کا سرچ وارنٹ حاصل کیا تھا'
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ آج پولیس نے سرچ وارنٹ حاصل کیا اور پی ٹی آئی کی قیادت کو آگاہ کیا کہ گھر کے اندر سرچ آپریشن درکار ہے، لیکن قیادت کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں۔ خواتین اہلکار بھی پولیس ٹیم کے ہمراہ تھیں۔
ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ہفتے کو بھی پولیس کی کارروائی کے دوران اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پولیس نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی گرفتاری کے لیے منگل کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک کی طرف پیش قدمی کی تھی جس پر پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ پولیس اور کارکنوں کی آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ بدھ کی سہ پہر تک جاری رہا تھا۔
پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے تھے جب کہ واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا تھا اورلاٹھی چارج بھی ہوا تھا۔
اس دوران پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا تھا جب کہ کچھ ایسی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِگردش تھیں جس میں پولیس پر پیٹرول بم بھی پھینکتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
اس کارروائی کے دورا ن پولیس زمان پارک میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور عمران خان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔ بعد ازاں عدالت نے پولیس کو آپریشن روکنے کا حکم دیتے ہوئے عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
جمعے کو لاہور ہائی کورٹ نے نو مختلف مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت بھی منظور کرلی تھی۔