اس سال 14 فروری کو ایران کےصوبہ مشرقی آذربائجان کے مرند شہر کی ایک اعلیٰ عدالت نے فیصلہ دیا کہ کسی نوزائیدہ کا نام 'ترکیے 'نہیں رکھا جاسکتا، جس لفظ کا آذری ترک زبان میں مطلب 'ترک چاند'لیا جاتا ہے۔
اس فیصلے سے نہ صرف بچے کے والدین حیران و پریشان ہوئے، بلکہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر آواز بلند کی جائے گی۔ قانونی جنگ دو ماہ سے زیادہ عرصے تک چلتی رہی، بعدازاں، مشرقی آذربائجان صوبے کی عدالت نے اپریل میں فیصلہ دیا کہ یہ نام ممنوعہ ناموں کی فہرست میں شامل نہیں ہے، اس لیے متعلقہ خاندان اپنے بیٹے کو اسی نام سے پکار سکتا ہے۔
ایران کی اس نسلی اقلیت کے لیے یہ فیصلہ نیک شگون تھا۔ عام طور پر انہیں حسرت ہی رہتی ہے، چونکہ کئی عشروں سے حکومت انہیں بچوں کے نام اپنی مرضی سے رکھنے کی اجازت نہیں دے رہی۔
آخر کار ایک اور ترک نے اپنا شناختی کارڈ حاصل کر لیا۔ یہ وہ جملہ ہے جو تبریز میں اس خاندان کی وکیل، ثنا یوسفی نے اپنی ٹوئٹ میں تحریر کیا، ساتھ ہی فیصلے کے متن کی تصویر بھی شائع کردی۔
بقول ان کے، 'آذری لوگوں کو ہمیشہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اورمشکل نوعیت کے ضابطوں سے گزرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر انھیں اپنے بچے کا نام رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔ تاہم، وہ اپنے شہری حقوق سے دستبردار نہیں ہوتے۔
سال 1979ء میں جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا، تب سے اب تک لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ بچوں کے نام رکھتے وقت وہ ناموں کی منظور شدہ فہرست کو پیش نظر رکھیں، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ملک کے حکمرانوں کی ایک باضابطہ مہم کا حصہ ہے جس کے تحت وہ تمام ایرانیوں پر اپنی ثقافتی اور مذہبی ترجیحات پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
اس کے متعلق، حکام یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ غیر منظور شدہ نام معاشرے میں نسلی تقسیم کے بیج بوتے ہیں، جس سے ملک کی مجموعی سوچ میں تفریق کا عنصر نمایاں ہوسکتا ہے۔ لیکن، ناقدین کا کہنا ہے کہ سماجی تعمیر کا یہ ایک انوکھا اندازہے جومعاشرے میں سخت روی کا مظہر ہے، جس سے اقلیتی گروہوں کو تواتر سے اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
ممنوعہ نام
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب والدین بچے کا نام رکھنے کی اجازت طلب کرتے ہیں تو عمومی طور پر عدالت کی جانب سے ان کی درخواست خارج کردی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں متعدد والدین نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر مقامی حکام ان ناموں کو غیر اسلامی یا نسلی قوم پرستی کا چہیتا نام کہہ کر ایسی ادرخواست مسترد کر دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عام طور پر کئی ایرانی والدین بچوں کے دو نام رکھتے ہیں، تاکہ ایک کی اجازت نہ ملے تو کم از کم دوسرا نام جاری رکھا جاسکے۔ ان میں سے ایک نام قانونی دستاویزات میں درج ہوتا ہے، جب کہ دوسرا خاندان یا احباب کی جانب سے بچے کا نام پکارنے کے کام آتا ہے۔
ایران کے شہری ا ندراج کے قانون کے مطابق، کسی بھی ایسے نام کو ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے جس سے اسلامی تشخص کی بے حرمتی ہوتی ہو، یا پھر وہ القاب یا کنیت جو ناشائستہ، دل شکن یا نامناسب ہونے کا مظہر ہوں۔ قانون میں شہری اندراج کی اعلیٰ کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ صادر کرے کہ کون سے ناموں کی اجازت ہے اور کن کی نہیں ہے۔
سال 2015ء میں محکمے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایا کہ قانون میں درج وضاحت کی پاسداری کو ایک طرف رکھ کر متعین حکام کھل کر من مانی کرتے ہیں۔ بقول ان کے، ان کا دفتر ان ناموں کی منظوری دیتا ہے جن کا تعلق ایرانی اور اسلامی ثقافت سے ہوتا ہے لیکن وہ بیرونی نام جن کا تعلق غیر ملکی ثقافت سے ہو، یکسر مسترد کردیا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایران پروگرام کے بانی سربراہ، الیکس وتنکا کے مطابق، اس مخصوص سماجی تعمیر کی مہم کا تعلق ایرانی قائدین سے ہے جو مدتوں سے اسی راہ پر چل رہے ہیں۔
وتنکا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''گزشتہ 43 برسوں سے اسلامی جمہوریہ کے اہلکاروں نے عام زندگی میں اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہوئے من پسند ضابطوں کو پروان چڑھایا، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کو بچوں کے کیا نام رکھنے چاہئیں، ان کا لباس کیا ہو اور کن اقدار کی ان کو پاسداری کرنی ہو گی''۔
انھوں نے الزام لگایا کہ 1980ء میں ایرانی حکمرانوں نے اسی طرح کا انداز اپناتے ہوئے اسلامی دور سے قبل کے فارسی ناموں پر قدغن لگائی تھی، جیسا کہ' سائرس' اور 'اردشیر'۔ پھر یہ تک ہوا کہ چند معروف اشخاص نے اپنے خاندانی نام تک تبدیل کردیے، جس سے بظاہر انہیں سیاسی فوائد کی توقع تھی۔
بقول ان کے، اگر آپ مخالفت کی راہ نہیں اپناتے، یعنی اگر آپ اپنا فارسی نام چھوڑ کر اسلامی نام اپناتے ہیں، تو اس میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔ اسسے متعلق بہت ہی مشہور معاملہ (سابق صدر) حسن روحانی کا ہے، جن کا پیدائشی نام 'روحانی' نہیں بلکہ' فریدون' تھا۔ انھوں نے اپنا نام اس لیے تبدیل کیا چونکہ، بقول ان کے، وہ اسلامی نام نہیں لگتا تھا۔